میرکل کی مہاجر پالیسی پر عوامی رائے بدلتی ہوئی
22 اگست 2016سن دو ہزار پندرہ کے موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے جرمنی میں داخل ہونا شروع کر دیا تھا۔ ان میں شامی، عراقی اور افغان مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ تب گزشتہ برس اکتیس اگست کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کو خوش آمدید کہتے ہیں کہا تھا کہ برلن حکومت اس بحران پر قابو پا سکتی ہے۔
اب میرکل کے اس بیان کو ایک سال کا وقت مکمل ہونے والا ہے۔ میرکل کی مہاجرین کے حوالے سے اس پالیسی نے جرمنی میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے Infratest Dimap نامی ایک پولنگ انسٹی ٹیوٹ سے ایک سروے کروایا ہے۔ اس سروے میں مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستگی رکھنے والے ایک ہزار جرمن رجسٹرڈ ووٹرز سے ان کی رائے دریافت کی گئی۔
اس سروے میں شرکاء سے پوچھا گیا کہ میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کا نتیجہ کیا نکلا اور یہ کہ میرکل کا یہ بیان کہ ’ہم کر سکتے‘ کس حد تک درست ثابت ہوا ہے۔ اس تناظر میں سروے کے شرکاء کے سامنے چار سوالات رکھے گئے، جن پر انہوں نے اپنی رائے دی۔ یہ سوالات کچھ یوں تھے۔
’تعلیمی اور سماجی شعبہ جات پر بوجھ پڑے گا‘
برلن حکومت کی طرف سے مہاجرین پر اٹھنے والے سالانہ اخراجات کا اندازہ پندرہ بلین یورو لگایا گیا ہے۔ گزشرہ برس جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کے لیے پہلے تو رہائش کا انتظام کیا گیا اور پھر انہیں خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔
ان مہاجرین کا بہتر انضمام اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے، جب وہ جرمن زبان سکھیں۔ اس مقصد کے لیے جرمن زبان کے اساتذہ کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی تعلیمی اخراجات اور بچوں کی نگہداشت کے لیے بھی رقوم درکار ہیں۔
کیا یوں جرمنی میں تعلیم اور سماجی شعبے کا نظام متاثر ہوگا؟ سروے کے نتائج کے مطابق رائے دہندگان کی معمولی اکثریت نے اس کے جواب میں کہا، ’جی ہاں‘۔
’جرمنی کی اقتصادیات میں بہتری پیدا ہو گی‘
جرمن زبان سے شناسائی تو ضروری ہے ہی لیکن ساتھ ہی جرمنی میں ملازمت ڈھونڈنے کی خاطر ہنرمند یا پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری ہے۔ جرمنی کو بدلتی ہوئی ڈیموگرافی کے حوالے سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ جرمنی میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد عمر رسیدگی کی طرف مائل ہے جبکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے نتیجے میں ملازمتوں کے لیے ان کا متبادل میسر نہیں ہے۔ یہ اثرات کئی کمپنیاں محسوس کر رہی ہیں۔
جرمنی میں ہر100 بے روزگار افراد کے لیے ملازمتوں کے دو سو مواقع میسر ہیں۔ کیا مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی میں جاب مارکیٹ کے اس خلاء کو پُر کر سکتے ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ سوال تھا کیونکہ مکینیکل انجینیئرنگ، آٹو اور الیکٹرک انجینیئرنگ کے شعبہ جات جرمنی کی بیس فیصد اقتصادی پیداوار کا باعث ہیں۔
مہاجرت اختیار کرنے والے افراد ان شعبہ جات میں مہارت نہیں رکھتے کیونکہ ان کے ممالک میں ان شعبوں میں ویسی ترقی نہیں ہوئی، جیسا کہ جرمنی میں ہوئی ہے۔ اس کے باوجود سروے کے شرکاء کی معمولی اکثریت کے مطابق مہاجرین اور تارکین وطن ملکی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
’جرمن معاشرے مزید متنوع ہو جائے گا‘
جرمنی میں بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے باعث نہ صرف ملکی اقتصادیات پر بلکہ ساتھ ہی معاشرتی سطح پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔
جرمنی میں پہلے ہی غیر ملکی افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے، بالخصوص بڑے شہروں میں۔ مستقبل میں اس تعداد میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ جرمن عوام اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
اس تناظر میں سیاسی وابستگی کی ثانوی حیثیت ہے۔ قوی امکان ہے کہ نوجوان اور پڑھے لکھے جرمن شہری کثیر القومی معاشرے کے حق میں ہوں گے۔
ایسے جرمن شہری متوقع طور پر میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی اور دہشت گردانہ حملوں میں کسی رابطے کو مسترد کر دیں گے۔ دوسری طرف سروے کے مطابق عمر رسیدہ اور کم پڑھے لکھے جرمن شہریوں میں یہ سوچ نمایاں ہے کہ مستقبل میں مزید دہشت گردانہ حملے ہوں گے۔
’مستقبل میں مزید دہشت گردانہ حملے ہوں گے‘
کیا مستقبل میں جرمنی میں مزید اسلام پسندانہ دہشت گردانہ حملے متوقع ہیں؟ اس سوال کے بارے میں سیاسی وابستگی کا بہت زیادہ اثر دیکھا گیا ہے۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق جرمنی کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے حامیوں میں سے صرف سات فیصد نے کہا کہ مزید حملے نہیں ہوں گے۔
اس سروے کے حتمی نتائج کے مطابق میرکل کی مہاجرین سے متعلق فراخدلانہ پالیسی پر عوام مختلف قسم کی رائے رکھتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے حامیوں کا کہنا ہے کہ میرکل کی مہاجر پالیسی کا جرمنی پر منفی اثر ہی مرتب ہو گا۔