جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جرمنی میں دہشت گردانہ حملوں کے باوجود اپنی مہاجر دوست پالیسی جاری رکھنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس سے موجودہ مخلوط حکومت میں شامل ایک اہم اتحادی جماعت متفق نہیں ہے۔
اشتہار
گزشتہ ہفتے جرمنی میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ داعش کے نام پر دہشت گردی کرنے والے دو شدت پسند جرمنی میں پناہ کی تلاش میں آئے تھے۔ ان واقعات کے بعد جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ وہ ان واقعات کے باوجود اپنی حکومت کی مہاجر دوست پالیسی جاری رکھیں گی اور پناہ کے مستحق افراد کو پناہ دی جائے گی۔
لیکن چانسلر میرکل کے ایک اہم اتحادی ہورسٹ زیہوفر نے، جو کہ نہ صرف صوبے باویریا کے وزیر اعلیٰ ہیں بلکہ وفاقی مخلوط حکومت میں شامل جماعت سی ایس یو کے سربراہ بھی ہیں، انگیلا میرکل کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق چانسلر میرکل کے اس فیصلے کے بارے میں زیہوفر کا کہنا تھا، ’’میں اپنی پوری کوشش، خواہش اور ارادے کے باوجود بھی اس موقف کی حمایت نہیں کر سکتا، کیوں کہ ہمیں جو مشکل درپیش ہے، وہ اس سیاسی موقف سے کہیں بڑی ہے۔‘‘
باویریا کے وزیر اعلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے عہدے کی وجہ سے جو معلومات انہیں حاصل ہیں، ان کی روشنی میں جرمنی کو تارکین وطن کے بحران سے نمٹنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ زیہوفر کے مطابق وہ اس معاملے پر کسی بحث کا حصہ نہیں بننا چاہتے لیکن وہ ’عوام کے سامنے جھوٹ بھی نہیں بول‘ سکتے۔
سی ایس یو اس سے پہلے بھی جرمنی میں مہاجرین کی بڑی تعداد کو پناہ دیے جانے کی مخالفت کرتی رہی ہے اور اس کی جانب سے بارہا یہ مطالبہ بھی سامنے آتا رہا ہے کہ ملک میں پناہ گزینوں کی آمد کی سالانہ بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی جائے۔
حال ہی میں جرمنی میں کیے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق جرمن عوام کی صرف آٹھ فیصد تعداد میرکل کے ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘ کے نعرے پر یقین رکھتی ہے۔ چانسلر میرکل کا یہ نعرہ گزشتہ برس اس وقت مقبول ہوا تھا جب انہوں نے تارکین وطن کے لیے ملکی سرحدیں کھولنے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ دینے کے بارے میں عوامی رائے تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔
یورپ میں اچھے مستقبل کا خواب، جو ادھورا رہ گیا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔