سوشل ڈیموکریٹک رہنما مارٹن شلُس نے میرکل کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یورپی پارلیمان کی سربراہی چھوڑی تھی۔ عوامی جائزوں میں شلُس کی مقبولیت میرکل سے کم ہے۔ یہ میرکل کے خلاف انتخابات لڑنے والا مارٹن شلُس ہیں کون؟
اشتہار
مارٹن شلُس کا تعلق وؤرسلن نامی علاقے سے ہے۔ آخن کے قریب واقع اس شہر کی آبادی محض اڑتیس ہزار ہے۔ شلس ابھی بھی اسی علاقے میں ہی رہتے ہیں۔ وہ 1987ء سے 1998ء یعنی گیارہ سالوں تک اس شہر کے میئر بھی رہے۔ ان کی کتابوں کی ایک دکان بھی ہے، جو وہ اپنی بہن کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں۔
رواں برس کے آغاز تک شلُس ایک یورپی سیاستدان تھے۔ وہ یورپی سوشلسٹ بلاک کے سربراہ اور 2012ء سے 2017ء تک یورپی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم اب شلُس میرکل کے مقابلے میں چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سے قبل سوشلسٹ پارٹی کے تین امیدوار میرکل کو شکست دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
میں خنزیر تھا
شلس 1955ء میں ایک پولیس افسر کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ فٹ بالر بننا چاہتے تھے لیکن گھٹنے کی چوٹ نے ان کا خواب چکنا چور کر دیا۔ وہ شراب نوشی میں مبتلا ہو گئے اور اپنی پڑھائی بھی مکمل نہیں کی۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں یعنی بیس سال کی عمر میں وہ ایک برس کے لیے بے روز گار بھی رہے۔ شلُس اپنے ماضی پر کھُل کر بات کرتے ہیں، ’’میں ایک خنزیر تھا اور میں اچھا طالب علم بھی نہیں تھا‘‘۔
وہ اس دور میں بھی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) میں کافی متحرک تھے۔ بتیس سال کی عمر میں جب وہ اپنے شہر کے میئر بنے تو اس وقت وہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اپنی پارٹی کے سب سے کم عمر ترین رہنما تھے۔
جمہوریت خطرے میں
جنوری 2017ء میں مارٹن شلس کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلر کا امیدوار منتخب کیا گیا۔ اس کے فوری بعد اپنے ایک انٹرویو میں شلس نے کہا، ’’حالیہ دنوں کے دوران شفافیت اور جمہوریت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ مایوسی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب شہریوں کو یہ احساس ہو کہ وہ سماج کے لیے کچھ کر رہے ہیں لیکن سماج ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہا اور نہ ہی انہیں عزت دے رہا ہے تو ان کا مزاج جارحانہ ہو جاتا ہے، ’’اگر جمہوریت لوگوں کو تحفظ کا احساس نہیں دے گی تو وہ متبادل تلاش کریں گے۔‘‘
واضح موقف
2016ء میں شلُس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ ہیں اور انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کو یورپ میں عوامیت پسندوں سے نتھی کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کو ایک غیر ذمہ دار شخص بھی کہا تھا۔ شلُس نے برسلز اور اسٹراس برگ میں بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ ایسے موضوعات پر بھی کھل کر اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں، جن کی وجہ سے شاید انہیں جرمنی کی داخلہ سیاست میں تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن کے بارے میں انہوں نے کہا تھا، ’’روس جو کر رہا ہے وہ بالکل نا قابل قبول ہے۔ روس کے جارحانہ اقدامات کا باہمی احترام کے یورپی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
انتخابی معرکہ
تمام جوش و خروش اور ولولے کے باوجود ایسا امکان دکھائی نہیں دے رہا کہ مارٹن شلُس چانسلر انگیلا میرکل کو شکست دے پائیں گے۔ پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کا امیدوار بننےکے بعد جنوری اور فروری میں مختصر مدت کے لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت تیزی سے بڑھی تھی۔ فروری میں میرکل کے چونتیس فیصد کے مقابلے میں شلُس کی عوامی مقبولیت پچاس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم اب الیکشن سے قبل یہ اعداد و شمار بالکل ہی بدل چکے ہیں۔ اب میرکل 52 فیصد اور شلُس 30 فیصد پر ہیں۔ شلُس ابھی بھی بہت پر امید ہیں اور وہ اُن ووٹرز کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکے ہیں کہ 24 ستمبر کو کس پارٹی کو ووٹ دیا جائے۔ اگست میں انہوں نے نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا، ’’میں چانسلر بنوں گا‘‘۔
SPD کی 150 سالہ تاریخ
وفاقی جمہوریہء جرمنی کی ایک بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) ان دنوں اپنے قیام کے 150 سال منا رہی ہے۔ ’ ایس پی ڈی‘ کی ہنگامہ خیز تاریخ پابندیوں، جلا وطنی ، تعاقب، شکست اور کامیابیوں سے عبارت رہی ہے۔
تصویر: picture alliance / dpa
ایس پی ڈی کا قیام
یہ جماعت شہر لائپسگ میں جرمن مزدوروں کی تحریک کے دوران 23 مئی 1863ء کو قائم ہوئی تھی۔ ولی برانٹ ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے پہلے چانسلر تھے، جو پارٹی کے قیام کے تقریباً سو سال کے بعد اس عہدے پر فائز ہوئے۔ ان ڈیڑھ سو برسوں میں اب تک تین سوشل ڈیموکریٹ جرمن سربراہ حکومت بن چکے ہیں۔
تصویر: DW
غیر قانونی حیثیت سے مزدور انجمن تک کا سفر
ارکان کے ابتدائی اجلاس خفیہ مقامات پر موم بتیوں کی روشنی میں منعقد ہوتے تھے۔ آؤگسٹ بیبل اور ولہیلم لیب کنیشٹ بانی ارکان کی حیثیت سے ان میں شریک ہوتے تھے۔ ایس پی ڈی کا نصب العین مزدوروں کے حق میں آواز بلند کرنا تھا۔ فرڈینانڈ لازال نے 1863ء میں ADAV کے نام سے ایک مزدور انجمن کی بنیاد رکھی تھی۔ 1872ء میں ان ارکان کی تعداد بڑھ کر اکیس ہزار ہو چکی تھی اور پھر بڑھتی ہی چلی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
پابندیوں کے باوجود کامیاب
صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں لوگوں کو اجرت اور کھانے کو روٹی ملنے لگی لیکن مزدوروں کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ بھاری صنعتوں میں کام سخت اور صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ تھا۔ مزدور انجمنوں میں بڑھتی رکنیت کے آگے 1878ء کے سوشلسٹ قوانین کے ذریعے بند باندھنے کی کوشش کی گئی اور سوشل ڈیموکریٹ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے باوجود ایس پی ڈی 1890ء تک ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکی تھی۔
تصویر: Ullstein Bild
ایس پی ڈی کی تنظیمی درسگاہ
برلن میں ایس پی ڈی کی پارٹی درس گاہ میں روزا لکسمبرگ اور آؤگسٹ بیبل جیسے ممتاز سوشل ڈیموکریٹس نے تربیت حاصل کی۔ اپنے والد ولہیلم بیبل اور اُن کے الفاظ کی یاد میں:’’علم طاقت ہے، طاقت علم ہے۔‘‘ 1912ء تک ایس پی ڈی جرمنی میں سب سے زیادہ ارکان کی حامل اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت بن چکی تھی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
وائیمار کا ہنگامہ خیز دور
ایس پی ڈی کے سیاستدان فلیپ شائیڈے مان برلن اسمبلی (رائش ٹاگ) کی بالکونی میں۔ اُنہوں نے نو نومبر 1918ء کو ری پبلک بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ایک سال بعد ہی ایس پی ڈی کے چیئرمین فریڈرش ایبرٹ رائش چانسلر بن گئے اور خواتین کے لیے ووٹ کا حق بھی ایک حقیقت بن گیا، جس کے لیے یہ جماعت 1891ء سے کوششیں کر رہی تھی۔ سوشل ڈیموکریٹس 1932ء تک مضبوط ترین سیاسی قوت رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نازی حکومت کی شدید مخالفت
23 مئی 1933 کو سوشل ڈیموکریٹ رکن پارلیمان اوٹو ویلز نے جرمن پارلیمان میں ہٹلر کے متنازعہ قوانین کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری آزادی اور زندگی تو ہم سے چھینی جا سکتی ہے، لیکن ہماری عزت کا سودا نہیں کیا جا سکتا ‘‘۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد مزدور تنظیموں کو کچل دیا گیا اور ایس پی ڈی پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
تعاقب اور جلا وطنی
ہٹلر کے جنگی دستوں کے باوردی ارکان کی نگرانی میں سوشل ڈیموکریٹ رہنماؤں کو دیواروں پر سے نعرے ہٹانا پڑے۔ متعدد سوشل ڈیموکریٹس کو حراست میں لے لیا گیا، جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ اوٹو ویلز نے 1933ء میں پراگ میں ایس پی ڈی کی جلا وطن شاخ Sopade کی بنیاد رکھی، جو بعد میں پیرس اور 1940ء تا 1945ء لندن میں سرگرم رہی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ایس پی ڈی کا نیا دور
1946ء میں فرینکفرٹ میں کُرٹ شوماخر خطاب کر رہے ہیں، جو اتحادی افواج کے زیر قبضہ مغربی جرمن علاقوں میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ تھے۔ سابق سوویت یونین کے زیر اثرعلاقوں میں ایس پی ڈی اور کے پی ڈی کو زبردستی ایس ای ڈی میں شامل کر دیا گیا۔ مغربی حصے میں 1949ء میں منعقدہ پہلے پارلیمانی انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹس کو CSU کے ہاتھوں شکست ہوئی اور پھر کئی سال تک کے لیے یہ جماعت اپوزیشن میں چلی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ایک مزدور تنظیم سے ایک جدید عوامی جماعت تک
1959ء میں گوڈیز برگر پروگرام کی منظوری دیتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹس نے مثالی سوشلسٹ نظریات کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے دروازے رائے دہندگان کے وسیع تر طبقات کے لیے کھول دیے۔ ایس پی ڈی نے سماجی فلاح پر مبنی آزاد معیشت اپنانے اور ملک کا دفاع کرنے کا عزم ظاہر کیا، جو کہ سی ڈی یُو اور سی ایس یُو کے ساتھ اُس بڑی مخلوط حکومت میں شمولیت کی شرائط تھیں، جس میں 1966ء سے ولی برانٹ نائب چانسلر بن گئے۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ولی برانٹ کے زیر سایہ ایک نیا آغاز
وارسا میں گھٹنے ٹیکتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹ چانسلر ولی برانٹ نے اپنی حکومت کی مشرقی یورپ کی جانب نئی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ اُن کے پہلے حکومتی پالیسی بیان کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ’زیادہ جمہوریت کی ہمت کی جائے‘۔ بعد کے برسوں میں برانٹ نے قانون، خاندان اور مساوی حقوق کے شعبوں میں کئی ایک اصلاحات متعارف کروائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارٹی کے اندر احتجاجی تحریک
1968ء میں طلبہ کی ہنگامہ خیز احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پارٹی میں شامل ہونے والے ارکان تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھے تاہم وہ پارٹی کے اندر تنازعات کو ہوا دینے کا بھی باعث بنے۔ 1974ء میں ہائیڈے ماری وچورک سوئیل کی صورت میں پہلی مرتبہ ایک خاتون یوتھ وِنگ کی سربراہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: ullstein bild
ہیلمٹ شمٹ اور’ جرمن خزاں‘
چانسلر ہیلمٹ شمٹ کے دور حکومت کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک لمحہ وہ تھا، جب چانسلر نے 1977ء میں آجرین کی تنظیم کے مقتول صدر ہنس مارٹن شلائر کی بیوہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ بائیں بازو کی انتتہا پسند تنظیم ’ریڈ آرمی فیکشن‘ کی دہشت گردانہ سرگرمیاں شمٹ کے لیے ایک آزمائش کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ پارٹی میں اندرونی تنازعات بھی زور پکڑ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حزب اختلاف کی حیثیت سے مشکل دور
1982ء میں سوشل لبرل اتحاد کے ختم ہونے کے بعد ایس پی ڈی ایک بار پھر کسی سال کے لیے اپوزیشن میں چلی گئی۔ 1994ء میں جرمن پارلیمان کے انتخابات میں ایس پی ڈی کے روڈولف شارپنگ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد پارٹی کے اندر ہونے والی ووٹنگ میں وہ پارٹی قائد کے انتخاب میں غیر متوقع طور پر صوبے زار لینڈ کے وزیر اعلیٰ آسکر لافونتین سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایس پی ڈی اور اصلاحات کا چیلنج
ہیلمٹ کوہل کے کئی سالہ دور کے بعد ستمبر 1998ء میں ایس پی ڈی کی حکومت بنی۔ ماحول دوست گرین پارٹی کے ساتھ بننے والی اس مخلوط حکومت میں گیرہارڈ شروئیڈر ایس پی ڈی کی جانب سے چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دوران شروئیڈر نے ایجنڈا 2010ء کے نام سے اصلاحات کا ایک جامع پروگرام شروع کیا۔ ٹریڈ یونین تنظیموں نے سخت تنقید کی اور ارکان تیزی سے اس جماعت کو چھوڑ کر نئی جماعت ’دی لِنکے‘ میں شامل ہونے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چانسلر شپ کے مشکل امیدوار
پیئر اشٹائن بروک ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ سابق وزیر مالیات کو اقتصادی ماہر کی حیثیت سے اس بحرانی دور میں اس عہدے کے لیے موزوں امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم اشٹائن بروک کو اپنے بے باک بیانات کی وجہ سے اکثر اپنی پارٹی کے اندر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں وہ انگیلا میرکل سے بہت پیچھے ہیں۔