1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل کے ساتھ سیلفی بنانے والے مہاجر کا فیس بک پر مقدمہ

شمشیر حیدر
12 جنوری 2017

2015ء میں شامی مہاجر انس مدمانی کی جرمن چانسلر کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے یہ تصویر بہت مشہور ہوئی تھی۔ مدمانی نے جب یہ تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کی سیلفی انٹرنیٹ پر وائرل ہو جائے گی۔

Deutschland Selfie Merkel und Syrer Anas Modamani
تصویر: Anas Modamani

انگیلا میرکل میرکل کے ساتھ بنائی گئی اس تصویر کو میڈیا نے بھی جرمنی میں مہاجرین کے بحران سے متعلق کئی خبروں میں شائع کیا لیکن مہاجر دوست اور مہاجر مخالف سوشل میڈیا صارفین بھی اس تصویر کو شیئر کرتے رہے ہیں۔ تاہم اسی تصویر نے مدمانی کے لیے مشکلات بھی پیدا کر رکھی ہیں۔

گزشتہ برس برسلز ایئر پورٹ پر خودکش حملہ ہوا جس کے بعد فیس بُک پر کئی ایسی جعلی خبریں گردش کرنے لگیں جن میں مدمانی کی اسی تصویر کو پوسٹ کر کے لکھا گیا تھا کہ یہ تصویر برسلز حملہ آور کی ہے جو مہاجر کے روپ میں جرمنی آیا اور اس نے میرکل کے ساتھ سیلفی بھی بنائی تھی۔

فیس بُک پر پھیلائی جانے والی ایسی ہی جعلی خبروں سے پریشان مدمانی نے آخر کار فیس بُک پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ مدمانی کا کہنا ہے کی ایسی جعلی خبروں میں اسے دہشت گرد اور مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

جرمن شہر وُرسبُرگ کی عدالت نے اب فیس بُک یورپ کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے کہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جعلی خبروں کے حوالے سے کسی مقدمے میں فیس بُک کی انتظاميہ اب پہلی بار کسی جرمن عدالت کا سامنا کرے گی۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مدمانی کے وکیل چن جو یُن نے کہا کہ جب بھی کسی جرم میں کوئی مہاجر ملوث ہو تو سوشل میڈیا پر مدمانی کی تصویر پوسٹ کر کے اسے مجرم ظاہر کیا جاتا ہے۔

مدمانی کے وکیل کے مطابق گزشتہ مہینے برلن میں ایک بے گھر شخص کو آگ لگا دینے کا واقعہ پیش آیا تو بھی فیس بُک پر اُن کے موکل کی تصویر شیئر کر کے لکھا گیا کہ مدمانی بھی ان ملزمان میں شامل تھا۔ اس پوسٹ کو پانچ سو سے زائد افراد نے شیئر کیا۔ لیکن یہ پوسٹ اس لیے نہیں ہٹائی گئی کیوں کہ اس میں فیس بُک کے مقرر کردہ معیارات کی خلاف ورزی نہیں کی گئی تھی۔

جرمنی میں دائر کیا جانے والا یہ مقدمہ انٹرنیٹ پر نفرت آميز اور جھوٹی خبریں پھیلانے کے خلاف کی جانے والی کوششوں میں ممکنہ طور پر ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

Facebook fights fake news

00:45

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں