میرکل کے قریبی معتمد آرمین لاشیٹ سی ڈی یو کے نئے سربراہ
16 جنوری 2021
آرمین لاشیٹ کو جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل بڑی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کا نیا سربراہ چن لیا گیا ہے۔ لاشیٹ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے قریبی معتمد اور سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔
اشتہار
وفاقی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے 59 سالہ وزیر اعلیٰ آرمین لاشیٹ کو انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کا نیا سربراہ آج ہفتہ سولہ جنوری کو ہونے والے اس پارٹی کے ایک آن لائن کنوینشن میں چنا گیا۔
پارٹی قیادت کے لیے تین امیدوار
آج کے اجلاس کے آغاز پر اس عہدے کے لیے امیدواروں کی تعداد تین تھی لیکن ان میں سے نوربرٹ رؤٹگن پہلے مرحلے کی رائے دہی میں سب سے کم ووٹ لے کر اس دوڑ سے خارج ہو گئے تھے۔ اس کے بعد مقابلہ صرف دو مرکزی امیدواروں کے مابین رہ گیا تھا۔
ان میں سے ایک اس قدامت پسند پارٹی کے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے دھڑے کی نمایاں شخصیت فریڈرش میرس تھے اور دوسرے مرکز کی طرف جھکاؤ رکھنے والے آرمین لاشیٹ۔ حتمی رائے دہی میں پارٹی کنویشن کے 521 مندوبین نے لاشیٹ کے حق میں اپنی رائے دی۔ لاشیٹ کو میرس کے مقابلے میں 51 ووٹ زیادہ ملے اور یوں وہ کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے نئے وفاقی سربراہ منتخب کر لیے گئے۔
آرمین لاشیٹ 2017ء سے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ پارٹی میں چانسلر انگیلا میرکل کے بہت قریبی معتمد سمجھے جاتے ہیں۔ لاشیٹ شروع سے ہی اس بات کے قائل رہے ہیں کہ اس سیاسی جماعت کو آئندہ بھی انگیلا میرکل کی مرکز کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سیاست پر کاربند رہنا چاہیے۔
اپنے انتخاب سے قبل سی ڈی یو کی وفاقی مجلس عاملہ کے اس آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لاشیٹ نے خبردار کیا تھا کہ سی ڈی یو ایک قدامت پسند سیاسی جماعت کے طور پر اگر آئندہ بھی الیکشن جیتنا چاہتی ہے، تو اسے داخلی تقسیم سے بچتے ہوئے مستقبل میں بھی دائیں بازو کی طرف بہت زیادہ جھکنے کے بجائے مرکز کی طرف جھکاؤ والی سیاست کرنا ہو گی۔
اس موقع پر لاشیٹ نے کہا، ''سیاست، سی ڈی یو کی سیاست کو اپنی صفوں میں دھڑے بندیوں سے بچنا ہو گا اور ہر موضوع پر ٹھوس اور واضح مؤقف اپنانا ہو گا تاکہ جرمن عوام کا اس پر اعتماد آئندہ بھی قائم رہے۔‘‘
صنف نازک کے ہاتھوں میں کن ممالک کی باگ ڈور ہے
دنیا میں کُل ایک سو پچانوے ممالک اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں ہیں۔ ان میں اکثریت پر مرد حکومتوں کے سربراہ ہیں۔ خواتین سربراہانِ حکومت و مملکت کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/Lehtikuva/V. Moilanen
سانا مارین
چونتیس سالہ سانا مارین کو حال ہی میں فن لینڈ کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنا لیڈر بھی منتخب کیا ہے۔ انہوں نے دس دسمبر بروز منگل کو منصب وزارتِ عظمیٰ سنبھال کر دنیا کی کم عمر ترین وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ وزیراعظم بننے کے دو ہی روز بعد انہوں نے یورپی یونین کی سمٹ میں اپنے ملک کی نمائندگی کی تھی۔
تصویر: Reuters/Lehtikuva/V. Moilanen
جیسنڈا آرڈرن
اکتوبر سن 2017 سے جیسنڈا آرڈرن نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے سینتیس برس کی عمر میں نیوزی لینڈ کے چالیسویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ وہ دوسری خاتون وزیراعظم ہیں جنہیں اس منصب پر رہتے ہوئے ماں بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اُن سے پہلے پاکستان کی مقتول وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے ہاں اس منصب پر فائز رہتے ہوئے بچے کی ولادت ہوئی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Keith
جینین انیز
لاطینی امریکی ملک بولیویا کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صدر ایوو موریلس کے رواں برس نومبر میں مستعفی ہونے کے بعد ملکی صدارت باون سالہ خاتون رہنما جینین انیز نے سنھبال رکھی ہے۔ وہ اس سے پہلے سینیٹ کی نائب صدر تھیں۔ وہ دائیں بازو کی قدامت پسند رہنما ہیں۔ انہوں نے جلد از جلد پارلیمانی انتخابات کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Karita
سوفی وِلمز
بیلجیم کی سابق وزیر بجٹ سوفی ولمز نے رواں برس ستائیس اکتوبر کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ وہ اپنے ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم ہیں۔ چوالیس سالہ سیاستدان فرانسیسی بولنے والی سیاسی جماعت لبرل سنٹرسٹ ایم آر پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Belga/V. Lefour
زُوزانا چاپُوٹووا
سلوواکیہ کی عوام نے مارچ سن 2019 کو زُوزانا چاپُوٹووا کو اپنے ملک کا صدر منتخب کیا تھا۔ وہ اس ملک کی صدارت سنبھالنے والی پہلی خاتون ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے پندرہ جون کو صدر کا منصب سنبھالا۔ وہ پینتالیس برس کی عمر میں صدر بنی، اس طرح سلوواکیہ کی تاریخ کی کم عمر ترین صدر ہیں۔ انہوں نے صدارتی الیکشن میں کامیابی ماحول دوستی اور انسداد بدعنوانی کی بنیاد پر حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Gluck
انگیلا میرکل
جرمنی میں سن 2005 سے چانسلر کے منصب پر انگیلا میرکل فائز ہیں۔ اکاون برس کی عمر میں وہ جرمنی کی پہلی خاتون قائدِ حکومت بنی تھیں۔ وہ اس وقت اپنی چوتھی اور آخری چانسلر شپ کی مدت مکمل کر رہی ہیں۔ میرکل کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتی ہیں۔ ان کی حکومتی مدت سن 2021 میں مکمل ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Hoslet
ساحلے ورک زوڈے
افریقی ملک ایتھوپیا کی پارلیمنٹ نے انہتر سالہ سابقہ سفارت کار ساحلے ورک زوڈے کو ملک کا پانچواں صدرمنتخب کیا۔ ایتھوپیا میں صدر کا منصب دستوری نوعیت کا ہے اور انتہائی محدود اختیارات کا حامل ہے۔ وہ ایتھوپیا کی صدر بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ اقوام متحدہ میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہ چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Allegri
سائی انگ وین
جمہوریہ چین یا تائیوان کی پہلی خاتون صدر سائی انگ وین نے بیس مئی سن 2016 میں منصب صدارت کا حلف اٹھایا تھا۔ وہ سن 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ وہ تائیوان کی حکمران ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے حوالے سے سخت پالیسی اپنا رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
ایرنا سولبرگ
ناروے کی وزارت عظمیٰ بھی ایک خاتون ایرنا سولبرگ نے سنبھال رکھی ہے۔ وہ اس منصب پر سولہ اکتوبر سن 2013 کو فائز ہوئی تھیں۔ سابق برطانوی خاتون وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے وہ متاثر ہیں۔ تھیچر کو ’آئرن لیڈی‘ کی عرفیت حاصل تھی اور اس مناسبت سے ناروے کی وزیراعظم کو ’آئرن ایرنا‘ کہا جاتا ہے۔ اٹھاون سالہ سیاستدان ناروے کی دوسری خاتون وزیراعظم ہیں۔ وہ ناروے کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ بھی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Wivestad Groett
سارا کونگونگیلا اما ڈیلا
باون سالہ سارا کونگونگیلا اماڈیلا نمیبیا کی چوتھی وزیراعظم ہیں۔ وہ اس منصب پر سن 2015 سے فائز ہیں۔ وہ ٹین ایجر کے دور میں حکومتی جبر کی وجہ سے ہمسایہ ملک سیرالیون جلا وطن ہو گئی تھیں۔ انہوں نے ملک لوٹنے سے قبل امریکا سے اکنامکس میں گریجوایشن کی تھی۔ وہ خواتین کے حقوق کی پرزور حامی ہیں اور وہ پہلی خاتون ہیں جو نمیبیا کی سربراہ حکومت ہیں۔
تصویر: Imago/X. Afrika
شیخ حسینہ
بنگلہ دیش کی دسویں وزیراعظم اور اس منصب پر سب سے لمبے عرصے تک فائز رہنے والی خاتون بہتر سالہ شیخ حسینہ ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں۔ فوربز میگزین انہیں مسلسل سن 2016 لے سے 2018 تک دنیا کی ایک سو با اثر خواتین میں شمار کرتا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildfunk
کولینڈا گرابار کیٹارووچ
اکاون برس کی کولینڈا گرابار کیٹارووچ بلقان خطے کے ملک کروشیا کی سربراہِ مملکت ہیں۔ وہ یہ منصب سنبھالنے سے قبل مختلف حکومتی عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ امریکا میں اپنے ملک کی سفیر بھی رہ چکی ہیں۔ سن 2015 میں صدارتی انتخاب جیت کر صدر بننے والی خاتون رہنما اپنے ملک کی کم عمر ترین صدر بنی تھیں۔
تصویر: Reuters/D. Sagolj
12 تصاویر1 | 12
اب تک پارٹی کے پانچ نائب سربراہان میں سے ایک
آرمین لاشیٹ 2012ء سے اب تک سی ڈی یو کے پانچ مرکزی نائب سربراہان میں سے ایک چلے آ رہے تھے۔ وہ عقیدے کے اعتبار سے ایک کیتھولک مسیحی شہری ہیں۔
2018ء تک انہیں خود انگیلا میرکل نے اپنا نائب پارٹی سربراہ بنا رکھا تھا اور میرکل کے بعد پارٹی لیڈر بننے والی خاتون سیاستدان آنےگریٹ کرامپ کارین باؤر نے بھی اسی بات کو ترجیح دی تھی کہ لاشیٹ وفاقی سطح پر پارٹی کے مرکزی نائب سربراہان میں سے ایک رہیں۔
اشتہار
میرکل کا قابل اعتماد ساتھی
آرمین لاشیٹ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ جرمنی کی سب سے بڑی قدامت پسند سیاسی جماعت کی برس ہا برس تک سربراہ رہنے والی اور ڈیڑھ عشرے سے بھی زائد عرصے سے وفاقی چانسلر کے عہدے پر فائز انگیلا میرکل کے قریبی معتمد ہیں۔
ایک عام سی لڑکی سے پہلی جرمن چانسلر تک کا سفر! آج سابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی 70 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ تین برس قبل سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی میرکل کو آج بھی سیاست میں ایک عملی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Jens Büttner/dpa/picture alliance
ایک پادری کی بیٹی
انگیلا میرکل ایک پادری کی بیٹی ہیں اور اُس دور میں پروان چڑھیں جب یورپ میں سابقہ سوویت یونین کے حلیف ممالک آہنی پردے کے پیچھے تھے۔ وہ سیاسی میدان میں اُس وقت بھرپور انداز میں سرگرم ہوئیں جب دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد اُس وقت کی مشرقی جرمن حکومت کے خلاف اپوزیشن انتہائی زیادہ متحرک تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Vennenbernd
روایت شکن رہنما
انگیلا میرکل نے جرمنی کے سیاسی منظرنامے کی کئی روایات توڑ ڈالیں۔ مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والی خاتون، جنہیں ’سیاست کے داؤ پیچ‘ بھی معلوم نہیں تھے، قدامت پسند جماعت کی سربراہ مقرر ہوئیں اورچار مرتبہ چانسلر بھی منتخب ہو چکی ہیں۔ جرمن مصنفہ یولی سہ نے انگلیلا میرکل ہی کو ایک تھیٹر ڈرامے ’مُٹی‘ یا ’ماں‘ میں موضوع بنایا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Pfaffenbach
تین برس پہلے تک دنیا کی سب سے بااختیار خاتون
کون جانتا تھا کہ انگیلا ڈوروتھیا کیزنر ایک دن دنیا کی سب سے طاقتور خاتون بن جائیں گی۔ ’مستقل مزاج‘، ’غیرجانبدار‘، ’خاکسار‘ اور ’غیرجذباتی‘ جیسے القابات ایک پروٹیسٹنٹ پادری کی اس بیٹی کو ملے، جو برانڈنبرگ کے علاقے ٹیمپلِن میں پلی بڑھی۔
تصویر: imago
ایک پولستانی گھرانہ
انگیلا کی دادی گیٹا اور دادا لُڈوِگ اپنے بیٹے ہورسٹ کے ہمراہ پوزن سے برلن منتقل ہوئے۔ سن 1930ء میں اس خاندان نے اپنے پولستانی نام Kazmierczak کو کیزنر میں تبدیل کیا۔ انگیلا میرکل کی پولستانی جڑوں کی بابت سن 2013ء میں معلومات سامنے آئی تھی، جس پر پولینڈ کے میڈیا پر خصوصی گفتگو بھی کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی جرمنی میں تعلیمی سفر
انگیلا میرکل نے برنڈنبرگ کے ایک اسکول جانا شروع کیا۔ سن 1973ء میں میرکل نے امتیازی نمبروں سے اپنی گریجویشن مکمل کی۔ انگیلا ریاضی اور روسی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔ اپنے اسکول کے برسوں میں وہ سوشلسٹ یوتھ آرگنائزیشن FDJ میں سرگرم رہیں۔ وہ پہلی جرمن سربراہ حکومت ہیں، جن کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
70 کی دہائی، راک اینڈ رول کے بجائے سائنس
میرکل نے جرمن شہر لائپزگ میں اپنی اعلیٰ تعلیم کی ابتدا طبعیات سے کی ۔ اس کے بعد وہ سابقہ مشرقی جرمنی کی اکیڈمی آف سائنس کے علمِ کیمیا کے شعبے سے منسلک ہو گئیں۔ یہیں ان کی ملاقات اپنے پہلے شوہر اُلرش میرکل سے ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میرکل کی سیاسی ابتدا
میرکل نے سیاست کا آغاز کیا اور پھر قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے منسلک ہو گئیں۔ یہیں وہ اپنے ’سیاسی استاد‘ اور پارٹی لیڈر ہیلمُٹ کوہل سے ملیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ جرمنی کی پارلیمان میں
سن 1990ء میں میرکل جرمن پارلیمان کی رکن منتخب ہوئی۔ سابقہ مشرقی جرمنی میں رہنے والی میرکل کی معلومات یورپی یونین کی بابت زیادہ نہیں تھیں، نہ ہی انہیں مغربی جرمنی کی سیاست کی گہرائیوں کیا زیادہ علم تھا، تاہم چانسلر ہیلمُٹ کوہل نے انہیں خواتین اور نوجوانوں کی وزارت کا قلمدان سونپ دیا۔ چار برس بعد وہ ماحولیات کی وزیر بنیں۔
تصویر: Reuters
خوبصورت قہقہے کی مالک
سیاست کا میدان، جس پر ہمیشہ سے مردوں کی گرفت رہی ہے، تاہم میرکل کسی جگہ کمزور دکھائی نہ دیں۔ جب یورپی یونین کو مالیاتی بحران کا سامنا تھا، تو میرکل جرمنی کے مفادات کے تحفظ کے لیے یورپی یونین میں ایک مضبوط آواز کی حامل دکھائی دیں۔ تاہم جرمنی میں ان کے ناقد ان پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ وہ کچھ معاملات پر واضح اور سخت الفاظ کا استعمال نہیں کرتیں۔
تصویر: Reuters
روسی سے تعلقات میں کشیدگی
مارچ میں یوکرائنی علاقے کریمیا پر روسی قبضے سے قبل میرکل اور پوٹن کے درمیان تعلقات ماضی کے مقابلے میں خاصے بہتر رہے۔ پوٹن میرکل کی انتہائی عزت کرتے ہیں۔ ایک طرف پوٹن جرمن اور دوسری طرف میرکل روسی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عام سا طرزِ زندگی
امریکا اپنے صدر کی شاندار رہائش گاہ وائٹ ہاؤس اور فرانسیسی ایلیزے پیرس کو جانتے ہیں، مگر برلن کے وسط میں میرکل اور ساؤر ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔ وہ علاقے کے لوگوں سے عموماﹰ سپرمارکیٹ میں ملتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میرکل کی سیاحت
میرکل اپنی چھٹیاں گزارنے اطالوی جزیرے اِشیا کا رخ کرتی ہیں، جہاں وہ اپنے شوہریوآخم ساؤور کے ہمراہ سوئمنگ اور ہائکنگ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Hase
جرمنی کی کامیابی کا سفر
قومی ٹیم کے اہم میچز میں بھی اپنے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے میرکل اسٹیڈیم کا رخ کرتی ہیں۔ برازیل میں ہونے والے حالیہ ورلڈ کپ مقابلوں میں جب جرمنی نے اپنا پہلا میچ کھیلا تو میرکل یہ میچ دیکھنے برازیل پہنچیں اور پھر فائنل کے موقع پر بھی میرکل اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ مقابلہ دیکھنے ریو ڈی جنیرو گئیں۔
تصویر: Reuters
سیاست سے کنارہ کشی
انگیلا میرکل نے اپنی صحت کی وجہ سے تین برس قبل جرمن سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ دو ہزار چوبیس کی ہنگامہ خیز دنیا میں بہت سے لوگ میرکل کی پرسکون موجودگی کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Ciro De Luca/AP/picture alliance
14 تصاویر1 | 14
2015ء میں یورپ میں مہاجرین کی آمد سے پیدا ہونے والے بحرانی حالات میں جب چانسلر میرکل نے جرمنی کی قومی سرحدیں لاکھوں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لیے کھول دینے کا فیصلہ کیا تھا، تو بہت سے سیاسی اور سماجی حلقوں نے تب میرکل کے اس انسان دوستانہ اقدام پر کڑی تنقید کی تھی۔ آرمین لاشیٹ تاہم تب بھی میرکل کے اس فیصلے کو درست سمجھتے ہوئے ان کے غیر مشروط حامی رہے تھے۔
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
چانسلرشپ کی امیدواری غیر واضح
آرمین لاشیٹ کو اب کرامپ کارین باؤر کے جانشین کے طور پر سی ڈی یو کا مرکزی سربراہ منتخب کیا گیا ہے۔
تاہم یہ بات ابھی غیر واضح ہے کہ آیا وہ جرمنی میں اسی سال ہونے والے اگلے پارلیمانی انتخابات میں وفاقی چانسلر کے طور پر انگیلا میرکل کا جانشین بننے کے خواہش مند بھی ہوں گے اور آیا خواہش مند ہونے کی صورت میں وہ ایسا کر بھی سکیں گے۔
جرمنی میں حکمران جماعت کا لیڈر ہی عموماﹰ وفاقی چانسلر ہوتا تھا لیکن انگیلا میرکل نے چند برس قبل اپنی چوتھی مدت اقتدار کے دوران پہلے پارٹی قیادت چھوڑ دی اور پھر یہ بھی کہہ دیا تھا کہ وہ مزید ایک مرتبہ چانسلر بننے کے لیے امیدوار نہیں ہوں گی۔
آرمین لاشیٹ چانسلر بننے کے خواہش مند ہوں گے یا نہیں، اس بارے میں انہوں نے خود ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ وہ جرمنی میں سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعلیٰ میں سے سیاسی طور پر سب سے زیادہ طاقتور صوبائی سربراہ حکومت سمجھتے جاتے ہیں۔
کرسٹوف اشٹرَک (م م / ع آ)
اہم عالمی رہنما کتنا کماتے ہیں
دنیا بھر کے اہم ممالک کے سربراہان حکومت اور ریاست کو ان کی خدمات کے عوض کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Warnecke
۱۔ لی شین لونگ
دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنخواہ سنگاپور کے وزیر اعظم لی شین لونگ کی ہے۔ اس عہدے پر اپنی خدمات کے عوض وہ ہر ماہ ایک لاکھ سینتالیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر رقم وصول کرتے ہیں۔
تصویر: imago/ZUMA Press/UPI
۲۔ الائن بیرسیٹ
سوئٹزرلینڈ کی کنفیڈریشن کے صدر الائن بیریسٹ کی ماہانہ تنخواہ قریب چھتیس ہزار ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/D. Balibouse
۳۔ انگیلا میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی تنخواہ یورپی یونین میں سب سے زیادہ اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ بطور رکن پارلیمان اور ملکی چانسلر ان کی مجموعی ماہانہ تنخواہ 27793 یورو (چونتیس ہزار ڈالر سے زائد) بنتی ہے اور انہیں اس پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Schrader
۴۔ ملیکم ٹرن بُل
آسٹریلوی وزیر اعظم میلکم ٹرن بُل کی سالانہ تنخواہ پانچ لاکھ اٹھائیس ہزار آسٹریلوی ڈالر ہے جو کہ ساڑھے تینتیس ہزار امریکی ڈالر ماہانہ کے برابر ہے۔ یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Rycroft
۵۔ ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر کی سالانہ تنخواہ چار لاکھ ڈالر ہے جو ماہانہ 33 ہزار تین سو تینتیس ڈالر بنتی ہے۔ صدر ٹرمپ سب سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے سربراہان مملکت میں اگرچہ پانچویں نمبر پر ہیں لیکن انہوں نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/Pool/R. Sachs
۶۔ چارلس مشیل
’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق بلیجیم کے وزیر اعظم چارلس مشیل اٹھائیس ہزار ڈالر کی ماہانہ تنخواہ کے ساتھ عالمی سطح پر چھٹے اور یورپ میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
۷۔ سرجیو ماتریلا
اطالوی صدر سرجیو ماتریلا ساتویں نمبر پر ہیں اور اس عہدے پر خدمات کے عوض انہیں ماہانہ تئیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office
۸۔ جسٹن ٹروڈو
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو عالمی سطح پر زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے رہنماؤں کی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ قریب سوا بائیس ہزار امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Tang
۹۔ کرسٹی کالیولائیڈ
یورپی ملک ایسٹونیا کی اڑتالیس سالہ صدر کرسٹی کالیولائیڈ کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Charlier
۱۰۔ لارس لوکے راسموسن
ڈنمارک کے وزیر اعظم اس فہرست میں دسویں نمبر پر ہیں اور انہیں ماہانہ پونے بیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Florin
۱۱۔ سٹیفان لووین
سویڈن کے وزیر اعظم سٹیفان لووین کی ماہانہ تنخواہ تقریبا ساڑھے انیس ہزار ڈالر بنتی ہے اور وہ اس فہرست میں گیارہویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/I.Hell
۱۲۔ جمی مورالیس
وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا کے صدر جمی مورالیس کی ماہانہ تنخواہ بھی انیس ہزار تین سو امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/A. Sultan
۱۳۔ آذر الیے
’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق آذربائیجان کے صدر آذر الیے کی ماہانہ تنخواہ بھی انیس ہزار ڈالر ہے۔
تصویر: Imago/Belga/F. Sierakowski
۱۴۔ ایمانوئل ماکروں
یورپی یونین کی دوسری مضبوط ترین معیشت فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار ڈالر سے زائد ہے جو کہ جرمن چانسلر کی تنخواہ سے نمایاں طور پر کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Marin
۱۵۔ شینزو آبے
پندرہویں نمبر پر جاپانی وزیر اعظم شیزو آبے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ سولہ ہزار سات سو ڈالر کے قریب بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Kambayashi
پاکستان سمیت دیگر اہم عالمی رہنما
اب تک آپ سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے پندرہ رہنما دیکھ چکے، آگے جانیے روس، ترکی، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک کے رہنماؤں کی تنخواہوں کے بارے میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Warnecke
ٹریزا مے
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے سولہ ہزار ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Brady/PA Wire
رجب طیب ایردوآن
ترک صدر رجب طیب ایردوآن ہر ماہ تیرہ ہزار ڈالر بطور تنخواہ لیتے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی تنخواہ کئی دیگر اہم رہنماؤں سے کم ہے۔ انہیں ہر ماہ ساڑھے بارہ ہزار ڈالر ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Kadobnov
عبدالفتاح السیسی
مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار آٹھ سو امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture -alliance/Sputnik/Vitaliy Belousov
نریندر مودی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس فہرست میں کافی نیچے ہیں اور ان کی امریکی ڈالر میں ماہانہ تنخواہ قریب پچیس سو بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
شی جن پنگ
دوسری مرتبہ چینی صدر منتخب ہونے والے شی جن پنگ ممکنہ طور پر’تا حیات‘ چینی صدر رہ سکتے ہیں۔ ’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق ان کی تنخواہ محض ایک ہزار سات سو ڈالر کے برابر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Ng Han Guan
شاہد خاقان عباسی
پاکستانی وزیر اعظم کو ملنے والی ماہانہ تنخواہ دنیا عالمی سطح پر انتہائی کم ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق شاہد خاقان عباسی کو ماہانہ قریب ساڑھے بارہ سو امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ دی جاتی ہے۔