میرے خلاف الزام، مجھے خاموش کرنے کی کوشش ہے، حامد میر
5 نومبر 2017خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کے نامور اینکر پرسن اور سینیئر صحافی حامد خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان الزامات کا مقصد دراصل انہیں خاموش کرانے کی کوشش ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ایک افسر شفیق احمد نے آج اتوار پانچ نومبر کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس معاملے کے حوالے سے تحقیقات کا دوبارہ آغاز کر دیا گیا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خالد خواجہ کے خاندان نے الزامات کے تناظر میں کوئی نئے شواہد فراہم نہیں کیے۔
خالد خواجہ اور پاکستانی فوج کا ایک اور سابق اہلکار مارچ 2010ء میں لا پتہ ہو گئے تھے۔ اس کے ایک ماہ بعد ان کی لاشیں ملی تھیں اور پاکستانی طالبان نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
ناقدین حامد میر کو طالبان کے ساتھ رابطے رکھنے کے باعث اس معاملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حامد میر طالبان کے لیے ہمدردی رکھنے یا ان کی مدد کے الزمات کو رد کرتے ہیں۔
حامد میر 2014ء میں ایک قاتلانہ حملے کا نشانہ بھی بن چکے ہیں۔ کراچی میں ان کی گاڑی پر اُس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ اسلام آباد سے کراچی پہنچے تھے۔ اس حملے میں ان کے جسم کے نچلے حصے میں تین گولیاں لگی تھیں۔ حامد میر پر اس سے قبل اسلام آباد میں بھی ان کی گاڑی میں بم فٹ کرکے حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کو ناکام بنادیا گیا تھا۔