پاکستانی تارک وطن شیراز بھٹی نے یورپ پہنچنے کے لیے بحیرہ روم کا خوفناک سفر طے کرنے کی کوشش کی تھی، جس دوران اس کی والدہ اور چھوٹی بہن ہلاک ہو گئیں۔ لیبیا میں مقیم شیراز آج بھی یورپ جانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
تصویر: Privat
اشتہار
گزشتہ چند سالوں سے لاکھوں مہاجرین لیبیا اور ترکی کے راستے بحیرہ روم کی تند و تیز لہروں سے لڑتے ہوئے چھوٹی کشتیوں میں یورپی ساحلوں تک پہنچنے کی کوششیش کر رہے ہیں، کچھ افراد کامیاب ہوجاتے ہیں اور بعض تارکین وطن اپنی قسمت بدلنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک پاکستانی تارک وطن شیراز بھٹی نے بحیرہ روم کے خطرناک سفر کو یاد کرتے ہوئے ’لیبیا میں مشکلات‘ اور ’بہتر مستقبل کی تلاش‘ کی کہانی ڈی ڈبلیو کو بتائی۔
سن 2015 میں شیراز بھٹی اور اس کے اہل خانہ نے یورپ پہنچنے کے لیے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ لیبیا میں موجود انسانی اسمگلروں نے اُن سے وعدہ کیا کہ اُن کو ایک بڑے بحری جہاز میں محفوظ طریقے سے یورپ منتقل کیا جائے گا۔ لیکن، حقیقت اس کے برعکس تھی۔ شیراز بھٹی اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ جب ساحل پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک چھوٹی کشتی ان کے انتظار میں کھڑی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Barrena
شیراز کےساتھ دیگر تارکین وطن بھی موجود تھے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ تمام افراد اس چھوٹی سی کشتی میں سوار ہوگئے۔ سفر شروع ہوا اور پہلے ہی گھنٹے میں کشتی ڈوبنے لگی۔ اسی دوران سمندر پار کروانے والے لیبیا کے اسمگلر ایک دوسری کشتی میں بیٹھ کر فرار ہو گئے۔
شیراز بھٹی کی معصوم بہن، جو کہ تیر نہیں سکتی تھی بہت کوشش کرنے کے باوجود گہرے سمندر میں ڈوب گئی۔ بھٹی اور اس کی والدہ آٹھ گھنٹے تک لائف جیکٹ زیب تن کیے سمندر میں زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑتی رہے لیکن علالت کے باعث ان کی والدہ دم توڑ گئیں۔ بالآخر لیبیئن کوسٹ گارڈ نے چار سو سے زائد تارکین وطن سے بھری اس کشتی میں سے صرف ایک سو پچیس کو بچا لیا۔ بھٹی سمیت دیگر تارکین وطن کو ایک عارضی ریسکیو مرکز میں ایک ہفتہ تک رکھنے کے بعد طرابلس روانہ کردیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Barrena
’میرے چھوٹے سے خواب ہیں‘
طرابلس میں شیراز اپنے چھوٹے بھائی کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس کے اہل خانہ پاکستان لوٹ چکے ہیں، جہاں شیراز کے والد زیر علاج ہیں۔ شیراز بھٹی اب نہ تو پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی انہیں لیبیا میں رہنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ شیراز کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں پیسہ کمانا مشکل ہے۔ وہ یورپ جانا چاہتے ہیں۔‘ یورپ پہنچ کر شیراز اعلٰی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے چھوٹے سے خواب ہیں اور میں تعلیم حاصل کر کے ایک اچھی نوکری کرتے ہوئےبہتر زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں‘۔
ع آ/ ع ا (انفو مائیگرینٹس)
مہاجرين اور اين جی اوز کے ساتھ يکجہتی، جرمن شہری سڑکوں پر
ہزاروں کی تعداد ميں جرمن شہريوں نے بحيرہ روم ميں مہاجرين کو ريسکيو کرنے والی غير سرکاری تنظيموں کے حق ميں مظاہرے کيے ہيں۔ ايسی تنظيميں ان دنوں سياسی دباؤ کا شکار ہيں اور ان کی سرگرميوں کو روک ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
برلن ميں ہزارہا افراد سراپا احتجاج
غير سرکاری تنظيموں کی مہاجرين و تارکين وطن کو ريسکيو کرنے سے متعلق سرگرميوں کو مجرمانہ فعل قرار ديے جانے پر جرمن دارالحکومت برلن سميت ديگر کئی شہروں ميں مظاہرين نے ہفتے کے روز احتجاج کيا۔ برلن کے مظاہرے ميں بارہ ہزار سے زائد افراد شريک تھے۔ علاوہ ازيں ہيمبرگ، بريمن، ميونخ اور اُلم ميں بھی احتجاج کيا گيا۔ مظاہرين نے مہاجرين کے ساتھ يکجہتی کے ليے لائف جيکٹس اٹھا رکھی تھيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
ريسکيو کرنے والوں کے ساتھ يکجہتی
ہيمبرگ کے مظاہرے ميں شريک ايک خاتون ’زے برؤکے‘ کے نام سے سرگرم رضاکاروں کے اتحاد کے ساتھ يکجہتی کے طور پر نارنجی رنگ کی لائف جيکٹس اور ديگر کپڑے لٹکاتے ہوئے ہے۔ نيچے لکھی تحرير کا مطلب ہے، ’سمندر ميں انسانوں کی جانيں بچانا جرم نہيں۔‘ ’زے برؤکے‘ کے لفظی معنی ’سمندر ميں پل‘ ہيں اور يہ اتحاد اس واقعے کے بعد وجود ميں آيا، جس ميں ایک بحری جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہيں دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
سب سے جان ليوا سمندری گزر گاہ
برلن ميں نکالے گئے مظاہرے ميں شريک دو خواتين جن کے پلے کارڈ پر لکھا ہے ’انہيں سمندر ميں بھولنا نہيں‘۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2018ء ميں اس سے پچھلے برسوں کے مقابلے ميں مہاجرين کی بحيرہ روم کے راستے آمد ميں خاطر خواہ کمی تو نوٹ کی گئی ہے تاہم يہ سال کافی جان ليوا بھی ثابت ہوا ہے۔ رواں سال اب تک چودہ سو سے زيادہ افراد بحير روم ميں ڈوب کر ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’بندرگاہيں کھول دو‘
متعدد اين جی اورز پچھلے دنوں کئی يورپی سياستدانوں کی تنقيد کا نشانہ بنتی رہی ہيں۔ چند ممالک نے مہاجرين سے لدے جہازوں کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دی يا پھر کافی تاخير سے اجازت دی۔ ايسے يورپی رہنما الزام عائد کرتے ہيں کہ ريسکيو سرگرميوں ميں ملوث غير سرکاری تنظيميں انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں ميں کھيل رہی ہيں۔ اين جی اوز کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنا کام نہ کريں تو کئی انسانی جانيں ضائع ہو سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
جرمن حکومت کی پاليسيوں پر برہمی
مظاہرے ميں شريک ايک شخص نے ايک تختی اٹھا رکھی ہے جس پر لکھا ہے، ’زيہوفر کی جگہ زیبرؤکے۔‘ يہ جرمن وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر کی پناہ گزينوں کے حوالے سے سخت پاليسی پر ايک طنزيہ جملہ ہے۔ زيہوفر کے اسی موضوع پر جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کے ساتھ اختلافات نے وفاقی حکومت کو بھی کافی پريشان کر رکھا ہے۔ پچھلے دنوں حکومت کو دوبارہ ايک بحران کا سامنا تھا جو بظاہر فی الحال ٹل گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’يورپ کی سرحديں بند رکھنے کی ذہنيت‘
جرمنی ميں ہفتہ سات جولائی کے روز نکالے گئے ان مظاہروں ميں شامل بيشتر افراد نے مہاجرين کو محفوظ راستے فراہم کرنے کی ضرورت پر زور ديا۔ انہوں نے ’فورٹريس يورپ‘ يا اس سوچ کی مخالفت کی کہ تمام اطراف سے سرحديں بند کر کے يورپ کو ايک قلعے کی مانند پناہ گزينوں کے ليے بند کر ليا جائے۔