میزائل بنانے میں ایران اور شمالی کوریا کے مابین مبینہ تعاون
9 فروری 2021
اقوام متحدہ کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری میں مبینہ طور پر ایران نے شمالی کوریا کے ساتھ تعاون کیا۔
اشتہار
اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کے اراکین کو شمالی کوریا سے متعلق اپنی جو نئی رپورٹ پیش کی ہے، اس کے مطابق گزشتہ برس شمالی کوریا تمام عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری اور بیلسٹک میزائلیں تیار کرتا رہا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا نے ہتھیاروں کے اس پروگرام کی فنڈنگ اس 30 کروڑ ڈالر کی رقم سے کی جو اس نے سائیبر حملے کر کے چرائے تھے اور وہ اب بھی اسی سمت میں گامزن ہے۔
رپورٹ میں بغیر نام لیے ایک ایسے ملک کا حوالہ دیا گیا ہے جس نے ایسے میزائلوں کو تیار کرنے میں شمالی کوریا کی مدد کی، جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا نے اپنی فوجی پریڈوں میں نئے کم رینج، درمیانی فاصلے، آبدوزوں سے داغے جانے والے اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کو پیش کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''اس (شمالی کوریا) نے نئے بیلسٹک میزائل وار ہیڈس کے تجربے کی تیاری کرنے اور نئے جوہری ہتھیاروں کو بنانے کا اعلان کیا...اور پھر اس نے اپنے بیلسٹک میزائلوں کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ بھی کیا۔''
اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ ایسے وقت افشا ہوئی ہے جب امریکا کی نئی انتظامیہ نے شمالی کوریا کے تئیں ایک ایسی نئی پالیسی پر چلنے کا عندیہ دیا ہے جس میں دباؤ کے ساتھ ساتھ سفارت کاری بھی شامل ہو سکتی ہے۔
اس رپورٹ کے حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز نے نیو یارک میں شمالی کوریا کے نمائندے سے رد عمل جاننے کی کوشش کی تاہم اس کی جانب سے فوری طور پر کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے۔
ایران کی شمولیت
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری کے منصوبے میں ایران نے بھی شمالی کوریا کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
ماہرین کی ایک ٹیم نے اس رپورٹ میں کہا ہے، '' کہا جا رہا ہے کہ دونوں کے درمیان اس دوبارہ تعاون میں اہم تکنیکی اجزاء کی منتقلی بھی شامل ہے، اس کا تعلق اس حالیہ ایرانی کھیپ سے بھی ہے جو 2020 میں ہوئی تھی۔''
بلوم برگ میڈیا ادارے کے مطابق شمالی کوریا کے میزائل ماہرین نے بھی ایران کے شاہد حاج علی موحد ریسرچ سینٹر کو ایک لانچ وہیکل کی تیاری میں حمایت اور مدد فراہم کی۔ اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں شمالی کوریا نے بھی کچھ سامان ایران بھیجے تھے۔
ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔اس نے رپورٹ تیار کرنے والے پینل کو بتایا کہ ممکن ہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی اعدادوشمار کا استعمال کیا گیا ہو۔
نئی امریکی انتظامیہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ اگر ایران کو 2015 کے جوہری معاہدے کو بچانا ہے تو اسے پہلے اس کی تمام شرطوں پر عمل کرنا ہوگا۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کی تین ملاقاتیں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر گزشتہ تقریباً ایک سال میں تین مرتبہ آپس میں ملاقات کر چکے ہیں۔ ان میں سے پہلی ملاقات سنگاپور، دوسری ہنوئے اور تیسری جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شمالی کوریائی سرزمین پر پہنچنے والے پہلے امریکی صدر
تیس جون 2019ء کو ہونے والی یہ ملاقات اس لیے بھی ایک تاریخی واقعہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوں ایسے پہلے امریکی صدر بن گئے، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہی شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ٹرمپ سیئول سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس ملاقات کے مقام پر پہنچے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
پانمنجوم میں شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی حدود میں خیر مقدم کیا اور پھر انہیں لے کر اپنے ملک میں داخل ہو گئے۔ اس تصویر میں ٹرمپ کو شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شاندار بہترین تعلقات
جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں پانمنجوم کے مقام پر ہونے والی اس ملاقات کے بعد کم جونگ اُن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کے ساتھ تعلقات کو شاندار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انہی تعلقات کی بدولت مختلف امور سے متعلق پائی جانے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images/B. Smialowski
حیران کن ملاقات کی دعوت
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جزیرہ نما کوریا کو منقسم کرنے والی اس حد کو عبور کرنا اُؑن کے لیے ایک اعزاز ہے اور یہ تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب ایک بڑا قدم بھی ہو گا۔ انہوں نے اس ملاقات کو بہترین دوستی سے بھی تعبیر کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski
دوسری ملاقات: ویتنامی دارالحکومت ہنوئے میں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کی دوسری ملاقات کی میزبانی ویتنام کو حاصل ہوئی۔ دونوں لیڈروں کے قیام اور ملاقات کے مقام کے لیے انتہائی سخت اور غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ کم جونگ اُن حسب معمول بذریعہ ٹرین ویتنام پہنچے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Vucci
ہنوئے سمٹ بے نتیجہ رہی
ٹرمپ اور اُن کی ہنوئے میں ملاقات ناکام ہو گئی تھی۔ اس ملاقات میں شمالی کوریائی لیڈر نے اپنے ملک کے خلاف عائد مختلف پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ پابندیاں فوری طور پر امریکی صدر ختم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان میں سے بیشتر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی طرف سے لگائی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/L. Millis
سنگاپور سمٹ
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان سنگاپور میں ہونے والی پہلی ملاقات تو ایک بار اپنی منسوخی کے بھی بہت قریب پہنچ گئی تھی۔ پھر دونوں لیڈروں کے رابطوں سے یہ ممکن ہوئی۔ یہ ملاقات بارہ جون سن 2018 کو ہوئی تھی۔ کسی بھی امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wallace
سنگاپور سمٹ: مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
امریکی صدر اور شمالی کوریا کے لیڈر کے درمیان سنگاپور ملاقات کے بعد دوطرفہ تعلقات اور معاملات کو بہتر بنانے کی یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے تھے۔ یادداشت کی اس دستاویز کا تبادلہ پیچھے کھڑے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور شمالی کوریائی خاتون اہلکار کے درمیان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Ministry of Communications