میمو گیٹ: سابق امریکی مشیر کا بیان عدالت کے حوالے
17 دسمبر 2011میمو گیٹ نامی اسکینڈل کی وجہ بننے والے پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 9 مئی 2011ء کو امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل جیمز جونز کے ساتھ ٹیلی فون پر ایک خفیہ مراسلے کے حوالے سے رابطہ کیا تھا۔ اس کے برعکس جنرل جیمز جونز نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ منصور اعجاز نے انہیں 9 مئی سے چند دن قبل فون کر کے ایک ایسے خفیہ مراسلے کے بارے میں آگاہ کیا تھا جس کے ذریعے ایک اعلیٰ پاکستانی شخصیت کا پیغام ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانا مقصود تھا۔ جیمز جونز کا یہ بھی کہنا ہے کہ فون پر منصور اعجاز کی طرف سے کی گئی گفتگو اور میمو کی تحریر ایک ہی جیسی ہیں، اس لیے یہ میمو منصور اعجاز نے خود ہی لکھا ہے۔
قانونی ماہرین جنرل جیمز جونز کے بیان کو اب تک کئی مختلف رخ اختیار کرنے والے میمو گیٹ اسکینڈل میں ایک اہم پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ کے وکیل عامر عباس کا کہنا ہے کہ میمو کے حوالے سے اپنا مؤقف ثابت کرنے کے لیے جنرل جیمز جونز کا صرف بیان حلفی ہی کافی نہیں۔
انہوں نے کہا، ’’جیمز جونز کے بیان کو شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے تو صرف دستاویزات کی اہمیت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ خود بھی آ کر اپنا بیان ریکارڈ نہ کرائیں یا کسی نہ کسی مرحلے پر ان کو آنا پڑے گا۔ یا عدالت کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایک کمیشن بناتی ہے، جو وہاں جا کر ان کا بیان ریکارڈ کر سکتا ہے اور اس کے علاوہ عدالت واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کو بھی یہ اختیار دے سکتی ہے کہ وہ کسی کا بیان ریکارڈ کر سکے۔‘‘
دوسری جانب سپریم کورٹ میں میمو گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے داخل کرائے جوابات میں سویلین اور فوجی قیادت کے مؤقف میں تضاد اب سپریم کورٹ سے باہر بھی واضح نظر آ رہا ہے۔ بعض اراکین پارلیمان اور قانونی ماہرین نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستعفی ہو کر اس معاملے کی تحقیقات میں عدالت کا سامنا کریں۔ ڈی جی، آئی ایس آئی کے استعفے کا سب سے پہلے مطالبہ عوامی نیشنل پارٹی کی رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے وکیل اکرام چوہدری نے بھی اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے، ’ان (ڈی جی، آئی ایس آئی) کی پوزیشن متنازعہ ہو گئی ہے۔ وہ بھی چونکہ اس مقدمے کے ایک فریق ہیں، اس لیے مناسب ہو گا کہ وہ مستعفی ہو کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کا سامنا کریں‘۔
متنازعہ میموگیٹ اسکینڈل کی آئندہ سماعت پیر کے روز سپریم کورٹ کا ایک دس رکنی لارجر بینچ کرے گا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف اور دیگر آٹھ افراد نے میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے یکم دسمبر کو سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں