مینگورہ آپریشن، گھر گھر تلاشی جاری
25 مئی 2009فوجی ذرائع کے مطابق فورسز نے اب تک پانچ بڑے چوکوں اور چوراہوں میں سے تین کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اتوار کے روز آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے مجموعی طورپر پانچ عسکریت پسندوں کی ہلاکت اور چودہ کی گرفتاری کا دعویٰ کیاہے۔
فوج نے مالم جبہ کاکنٹرول سنبھال لیا ہے جب کہ کبل پر کنٹرول کے لئے شدید لڑائی جاری ہے مینگورہ اور نواحی علاقوں میں دوہفتوں سے کرفیو ہے جب کہ شہر میں اشیاء خوردونوش اورادویات کی قلت کی وجہ سے وہاں پر محصور افراد زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ مینگورہ کے نواحی علاقوں کوزہ بانڈی، کبل، برہ بانڈی، سنگولئی اورمٹہ کے بعض لوگ مجبوری کی وجہ سے دشوار گذار پہاڑی راستوں پرکئی گھنٹے پیدل چل کر محفوظ مقامات پر پہنچ رہے ہیں تاہم یہاں پہنچ کر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اپنے رشتہ داروں اوردوستوں کے گھروں میں پناہ لے رہے ہیں سترہ گھنٹے دشوار گذار پہاڑی راستوں کے ذریعے طویل سفر کرکے تحصیل مٹہ سے پشاورپہنچنے والے خاندان کے سربراہ سروراقبال اپنی مشکلات یوں بیان کرتے ہیں: ’’ راستے میں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جواپنے بیمار والدین، بچوں اور رشتہ داروں کوکندھوں پر باری باری اٹھاکر جنگ زدہ علاقوں سے نکل رہے ہیں۔‘‘
سرو رخان کا کہناہے کہ وہ گیارہ دن کرفیو کی وجہ سے گھر کے اندر محصور رہے۔ ’’گھر میں کھانے پینے کے لئے کچھ باقی نہیں رہا بچے بیمار ہونے لگے بھوک کے مارے مرنے کے قریب تھے ایسے میں ہمارے پاس دوسرا راستہ نہیں تھا میں نے سوچا کہ بچے بھوک سے مریں گے اس سے بہتر ہے کہ بمباری سے مریں یا پھر کسی محفوظ علاقے تک پہنچ جانے میں کامیاب ہوجا ئیں۔ ہم نے مٹہ سے پہاڑی راستوں سے سفر شروع کیا ڈراور بھوک سے بچے اورخواتین کابراحال تھا مسلسل سترہ گھنٹے پیدل چل کر ہم چکدرہ پل پہنچے جہاں سے گاڑی میں سوار ہوکر را ت دو بجے پشاورپہنچ گئے ہم ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں ایک طرف طالبان کے ظلم ہیں تودوسری طرف فوج کی بمباری ہے یہاں پہنچ کر پوری فیملی بیمارپڑی ہے اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لائے کیونکہ باری باری تھک جانے والے چار اور پانچ سالہ بچے اٹھاتے رہے۔‘‘
تین ہفتے قبل طالبان نے اس اہم شہر میں داخل ہوکر تمام سرکاری اورغیر سرکاری اہم مقامات اور عمارتوں پر قبضہ کرلیا تھا اس دوران انہوں نے شہر کے گلی کوچوں میں بارودی سرنگیں بچھا دی جس کی وجہ سے فوج کو زمینی آپریشن میں دشواری کا سامنا ہے تین ہفتے قبل طالبان کے قبضے میں آنے والے اس شہر کی آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ 75 ہزار ہے۔ مینگورہ شہر مالاکنڈ ڈویژن کا صدرمقام اور اہم تجارتی مرکز ہے شہر سے عسکریت پسندوں کا قبضہ چھڑانے کے لئے دوہفتے قبل فورسز نے جنوب، شمالی مغرب اور شمال مشرق سے آپریشن کاآغاز کیا تینوں اطراف سے شہر پر فوج نے آپریشن کا آغاز کردیا جبکہ آخری حد دریائے سوات کے ساتھ لگی ہے۔ ان تین اطراف کے علاوہ مینگورہ کاتحصیل کبل اورمٹہ سمیت دیگر علاقوں کے ساتھ زمینی رابطہ دریائے سندھ پرواحد پل ایوب برج کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ دیگر آمدورفت کے لئے دشوار گذار پہاڑی راستوں کے علاوہ کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے کرفیو کی وجہ سے کبل، مٹہ اور نواحی علاقوں میں محصور لوگ کئی میل تک دشوار گذار پہاڑی راستوں کے ذریعے جان بچاکر نکل رہے ہیں ادھر چکدرہ کے مقام پر کرفیو کی وجہ سے کھلے میدان میں پھنسنے والے شاہ جی نے ڈویچے ویلے کے رابطے پر بتایا ہے : ’’رات کرفیو میں پانچ گھنٹے کی نرمی کی گئی اس دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگ نقل مکانی کی غرص سے چکدرہ پہنچ گئے ہیں لیکن یہاں آگے جانے والے تمام راستے بند ہیں کسی کے پاس نہ کھانے کے لئے کچھ ہیں اور نہ ہی سفر کے لئے وسائل موجود ہیں۔‘‘
ادھر سیکیورٹی فورسز کے جیٹ طیاروں نے تحصیل مٹہ کے علاقوں چارباغ اور فتح پور میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر شیلنگ کی ہے جس میں متعدد ہلاکتوں کاخدشہ ہے ایک طرف دوہفتوں سے کرفیو کی وجہ سے گھروں میں محصور لوگ بھوک اوربیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں جبکہ دوسری جانب کیمپوں میں رہائش پذیر متاثرین خوراک، پانی اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں سیکیورٹی فورسز کے ترجمان کا کہناہے کہ آپریشن مکمل ہونے میں سات سے دس دن لگ سکتے ہیں سست روی کی بنیادی وجہ آپریشن کے علاقوں میں شہریوں کی موجودگی ہے جنہیں عسکریت پسندڈھال کے طورپر استعمال کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف مصروف عمل عسکریت پسندوں میں دس سے پندرہ فیصد غیرملکی دہشت گردہیں۔