مینیجر ہوتا ہے یا ہوتی ہے؟ حکومت کو مسودہ قانون بدلنا پڑ گیا
15 اکتوبر 2020
جرمنی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہر شعبے میں مردوں اور خواتین کے آئینی حقوق بالکل برابر ہیں۔ جرمن وزارت انصاف کو ایک نئے قانون کا مسودہ اس بحث کے بعد بدلنا پڑ گیا کہ اس کے متن میں مینیجر کی صنف پر زور قطعی غیر اہم تھا۔
اشتہار
جرمن وزارت انصاف ملک میں کاروباری اداروں کے دیوالیہ پن سے متعلق ایک نئے قانون کی منظوری کی خواہش مند تھی۔ اس یورپی ملک میں ریاستی، معاشرتی اور قانونی سمیت ہر سطح پر صنف کی بنیاد پر مردوں اور عورتوں کے مابین تفریق یا کسی امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس لیے کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ہر شعبے میں قانونی اور عوامی سطح پر بھی زبان ایسی استعمال کی جائے، جو ماضی میں مردوں کی روایتی صنفی برتری والے رویوں یا پدر شاہانہ سوچ کی عکاس نہ ہو۔
دو حرفوں سے پڑنے والا فرق
جرمن زبان میں کسی بھی مذکر اسم کے آگے -in لگا کر اس کی مؤنث شکل بنائی جاتی ہے۔ تو اس مسودہ قانون میں بھی دیوالیہ پن کے خطرے کے شکار کسی بھی ادارے کی اعلیٰ انتظامیہ کا ذکر کرتے ہوئے مینیجر کے ساتھ ساتھ لفظ 'مینیجرِن‘ (Managerin) بھی لکھ دیا گیا۔ یہی بات اس بارے میں بحث کی وجہ بنی۔
اس مسودہ قانون کی تیاری کے دوران وفاقی وزارت انصاف نے وفاقی وزارت داخلہ سے بھی رابطہ کیا تھا، جس نے اعتراض یہ کیا کہ کسی بھی ادارے کے مینیجر سے مراد مرد بھی ہوتا ہے اور عورت بھی۔ انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس عہدے پر فائز فرد کی صنف کیا ہے۔ لیکن اس کا 'مرد مینیجر‘ اور 'خاتون مینیجر‘ کے طور پر بالخصوص اس قانونی بل میں ذکر کرنا اس عمل کے اصولاﹰ درست ہونے کے باوجود 'تکنیکی طور پر ایک پیچیدہ بات‘ ہے۔
وفاقی جرمن وزارت داخلہ کا اعتراض یہ تھا کہ اگر تمام ملکی قوانین کے متن میں ہر جگہ مرد کے ساتھ ساتھ عورت بھی لکھنا شروع کر دیا جائے، تو یہ اتنا بڑا اور وقت طلب کام ہو گا کہ اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی اور پھر ہر قانون کے متن میں کی جانے والی کوئی معمولی سی ترمیم بھی پارلیمان سے نئے سرے سے منظور کروانا پڑے گی۔
چانسلر میرکل کی حکومت چونکہ یہ نیا مسودہ قانون زیادہ تاخیر کیے بغیر منظور کروانا چاہتی تھی، اس لیے فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس قانونی بل کے متن میں 'خواتین مینیجر‘ (Managerin) کا لفظ اور لسانیاتی حد تک صنفی مساوات کی کوشش کی عکاس ایسی تمام تراکیب بدل کر دوبارہ 'یک صنفی‘ یا 'مرادانہ‘ کر دی جائیں، مثال کے طور پر 'اگر کسی ادارے کا مینیجر یہ فیصلہ کرے ۔ ۔ ۔‘ وغیرہ وغیرہ۔
متن میں اس لسانیاتی ترمیم کے بعد مجوزہ قانون کے اس مسودے کو جرمن کابینہ کے بدھ چودہ اکتوبر کو ہونے والے ایک اجلاس میں منظور بھی کر لیا گیا۔ اب یہ بل وفاقی پارلیمان میں پیش کیا جائے گا، تاکہ جلد منظوری کے بعد کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ہونے والے اقتصادی نقصانات کا احاطہ کرتے ہوئے کاروباری اداروں کے ممکنہ دیوالیہ پن کے حوالے سے میرکل حکومت کے اقدامات کو قانونی شکل دی جا سکے۔
روم میں بنگلہ دیشی خواتین کا دقیانوسی صنفی روایات کو چیلنج
یورپ میں اطالوی دارالحکومت روم ایک بڑی بنگلہ دیشی آبادی کا میزبان شہر ہے، جس میں خواتین کا تناسب تیس فیصد ہے۔ بظاہر بنگلہ دیشی تہذیب مرد کے گرد گھومتی ہے لیکن روم میں یہ صورت حال الٹ کر رہ گئی ہے۔
تصویر: DW/V. Muscella
ایک ابھرتی ہوئی برادری
اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق روم میں چالیس ہزار بنگلہ دیشی شہری آباد ہیں۔ ان میں سے بیشتر روم شہر کی ایک مشرقی نواحی بستی ٹور پگناٹارا میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
’کام عورت کے لیے بہتر ہے‘
چھیالیس برس کی لیلیٰ روایتی ملبوسات کی ایک دوکان کی مالکہ ہیں۔ وہ خواتین کی ایک تنظیم (مہیلا سماج کولان سومیتی) کی صدر بھی ہیں۔ لیلیٰ کے مطابق بعض بنگلہ دیشی شوہر خواتین کے اپنا کوئی کاروبار کرنے کو پسند نہیں کرتے۔
تصویر: DW/V. Muscella
گھسی پٹی روایات سے نکلتے ہوئے
29 برس کی سنجیدہ بھی ایک ثقافتی ثالث ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے اٹلی آئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹلی پہنچنے کے بعد انہوں نے حجاب پہننے کا فیصلہ کیا۔ سنجیدہ کے مطابق چند بار انہیں امتیازی رویوں کا سامنا ہوا لیکن انہوں نے اپنے خاندان کی پرورش اسی ملک میں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بطور ایک ثقافتی ثالث گھریلوں خواتین سے ملاقاتوں میں انہیں اطالوی زبان کے کورسز میں حصہ لینے کی ترغیب دیتی ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
تعلیم بھی حقوق کے حصول ہی کا حصہ
بیس سالہ نائر روم ہی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ لا اسپینزا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ نائر کے مطابق وہ بنگلہ دیشی اور اطالوی دونوں تہذیبوں کی حامل ہیں اور تعلیم کو زندگی کا ایک انتہائی اہم پہلو قرار دیتی ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
بنگلہ دیشی روایات بھی روم پہنچ گئیں
چھیالیس سالہ سلطانہ چھبیس برس قبل اٹلی پہنچی تھیں۔ انہوں نے روایتی فیش کا اپنا ایک بوتیک نواحی علاقے ٹور پگناٹارا میں کھولا۔ سلطانہ کے مطابق اٹلی میں مقیم بنگلہ دیشی خواتین اب گھروں سے باہر نکل کر عملی زندگی کا حصہ بننے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
دو مختلف تہذیبوں کے درمیان پُل
صائمہ پچاس برس کی ہیں۔ وہ ہسپتالوں، اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں ایک ثقافتی ثاللث کے طور پر کام کرتی ہیں۔۔ ان کا خیال ہے کہ اٹلی میں وہ بنگلہ دیشی تہذیب کے چند رنگ کھو تو چکی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ کچھ نئے ثقافتی رنگ سمیٹنے میں بھی کامیاب رہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
ایک نئی نسل
ساحلہ اٹھائیس برس کی ہیں، وہ روم میں پیدا ہوئیں اور اسی شہر میں پلی بڑھیں۔ وہ یہ پسند نہیں کرتیں کہ اُن سے پوچھا جائے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں یا اطالوی۔ ساحلہ کا کہنا ہے کہ اطالوی خواتین کی طرح وہ بھی کھلے ذہن کی مالک ہیں لیکن وہ ایک بنگلہ دیشی بھی ہیں۔ ساحلہ کے مطابق اٹلی میں پیدا ہونے والی بنگلہ دیشیوں کی دوسری نسل زیادہ بہتر محسوس کرے گی۔
تصویر: DW/V. Muscella
ثقافتوں کا انضمام
بنگلہ دیش کی مجموعی آبادی میں نوے فیصد مسلمان ہیں جبکہ دس فیصد کے قریب ہندو ہیں۔ ایک اطالوی محقق کاتیوسچیا کارنا کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی آبادی میں ہر شخص ایک منفرد پس منظر کا حامل ہے۔
تصویر: DW/V. Muscella
8 تصاویر1 | 8
'قانون کی زبان کو بھی سماجی تبدیلیوں کا آئینہ ہونا چاہیے‘
وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے مطابق یہ بات درست ہے کہ کسی بھی معاشرے میں قانون سازی کے لیے استعمال ہونے والی زبان کو سماجی تبدیلیوں کی آئینہ دار ہونا چاہیے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اب تک معاشرتی سطح پر اتنی تبدیلی نہیں آئی کہ جرمن زبان میں 'مینیجرِن‘ کہہ کر اس سے مراد مرد اور خواتین دونوں لی جائے۔ اس کے برعکس جب 'مینیجر‘ کہا جاتا ہے تو اس لفظ کے مذکر ہونے کے باوجود اس سے مراد کوئی مرد بھی ہوتا ہے اور خاتون بھی۔
خواتین کا عالمی دن: ایشیائی ممالک میں صنفی مساوات
گزشتہ چند برسوں میں صنفی مساوات کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود آج بھی ایشیائی خواتین اور لڑکیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشین ممالک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
تصویر: NDR
افغانستان
افغانستان میں امریکا کے زیر سربراہی بین الاقوامی فوجی اتحاد نے سن 2001 میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، جس کے بعد سے ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا۔ تاہم موجودہ افغان حکومت میں طالبان کی ممکنہ نمائندگی کا مطلب ہے کہ خواتین ایک مرتبہ پھر تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
تصویر: Getty Images/R. Conway
ایران
ایرانی خواتین کی ایک فٹ بال ٹیم تو بن چکی ہے لیکن وہاں آزادی اور خودمختاری کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔ ایرانی وکیل نسرین سوتودیہ کو پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ اسکارف کی پابندی کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کا دفاع کر رہیں تھیں۔
تصویر: Pana.ir
پاکستان
یہ پاکستان کی پہلی کار مکینک عظمٰی نواز (درمیان میں) کی تصویر ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک خواتین کی آزادی کے راستے پر گامزن ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں خواتین ’عورت آزادی مارچ‘
#AuratAzadiMarch میں شرکت کر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza
بھارت
بھارت میں ’خواتین بائیکرز‘ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے مثبت اقدام کے باوجود خواتین جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بنتی ہیں۔ گزشتہ برس، بھارت میں متعدد خواتین نے اپنے حقوق کے دفاع کے لیے آواز بلند کی۔ #MeToo مہم کے ذریعے متاثرہ خواتین معاشرے کے طاقتور مردوں کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
انڈونیشیا
انڈونیشی خواتین ملکی ترقی کا اہم حصہ ہیں لیکن ان کو قدامت پسند مذہبی قوانین کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر آچے صوبے میں شرعی قوانین نافذ کیے جانے کے بعد خواتین کو اسکارف پہننے پر مجبور کیا گیا اور خواتین کا نا محرم مردوں سے بات چیت کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔
تصویر: Imago/C. Ditsch
سری لنکا
سری لنکا میں صنفی مساوات کی صوتحال قدراﹰ بہتر ہے۔ سری لنکن خواتین تعلیم اور روزگار کا انتخاب خود کر سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا شاید واحد ایسا ملک ہے، جہاں خواتین کو صحت اور تعلیمی سہولیات تک بھرپور رسائی حاصل ہے۔
تصویر: Imago/Photothek
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی عوام دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک خاتون کا بطور وزیراعظم انتخاب کر رہے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق میں واضح بہتری پیدا ہوئی ہے۔ تاہم روزگار کی منڈی میں خواتین کی نمائندگی ابھی بھی کم ہے اور صحت و تعلیم تک محدود رسائی ہے۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
چین
چینی خواتین کو بلاشبہ ملک کی تیز معاشی ترقی سے فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن ان کو سماج میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آج بھی بچیوں کی پیدائش کے حوالے سے سماجی تعصب موجود ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تعلیم تک محدود رسائی فراہم کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
8 تصاویر1 | 8
گرینز اور لیفٹ پارٹی کے موقف
جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور بائیں بازو کی جماعت 'دی لِنکے‘ کے خواتین سے متعلقہ امور کے ترجمان پارلیمانی ارکان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اس قانون سازی کے دوران جو کام پہلی بار روایت سے ہٹ کر اور زیادہ بہتر طور پر کرنے کی کوشش کی گئی تھی، مسودے کی زبان کی صورت میں وہ کاوش اس بل کی پارلیمانی منظوری سے پہلے ہی ترک کر دی گئی۔
تاہم ان دونوں جماعتوں نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا ہے کہ جرمنی میں کم از کم ملکی قوانین کی زبان اور پارلیمانی دستاویزات میں 'عمومی مردانہ لہجے‘ کے خاتمے کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں سرکاری زبان میں generic masculine کا استعمال بتدریج کم ہوتا جائے گا۔
م م / ع س (ڈی پی اے)
فرانسیسی میگزین کے کور پر پہلی بار ٹرانس جینڈر ماڈل