’’مین ہٹن کے مسلمانوں کو نماز کے لئے جگہ چاہئے‘‘
19 اگست 2010لوئر مین ہٹن کے علاقے کے زیادہ تر مکین یا تو مختلف عمارتوں کے تہہ خانوں میں یا پھر سڑکوں پر ہی نماز ادا کرتے ہیں۔
گیارہ ستمبر سن 2001ء کے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ اور عزیز واقارب کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جو اس علاقے میں مسلمانوں کی مجوزہ عبادت گاہ کی جذباتی بنیادوں پر مخالفت کرتی ہے۔ یہ مجوزہ مسجد اور اسلامک سینٹر گیارہ ستمبر کا نشانہ بننے والے ورلڈ ٹریڈ ٹاورز سے صرف دو بلاک کی دوری پر بنائی جانی ہے۔
گھانا سے تعلق رکھنے والے مسلمان امریکی شہری سعد مداہا اس علاقے میں ایک نائٹ کلب کے تہہ خانے میں بنائی گئی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔ مداہا کا کہنا ہے : ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ اس علاقے میں کتنے مسلمان آباد ہیں؟ جمعے کے روز یہاں کی گلیاں نماز کے وقت بند کر دی جاتی ہیں۔ ہمارے پاس گلیاں بند کرنے کے لئے پولیس سے حاصل کیا گیا خصوصی اجازت نامہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ یہاں ایک ایسی مسجد دیکھنا چاہتے ہیں، جو واقعی مسجد جیسی دکھائی دے، جہاں وہ پوری یکسوئی سے نمازیں پڑھ سکیں اور جہاں انہیں نماز کی ادائیگی کے دوران موسیقی کی آواز سنائی نہ دے۔
مین ہٹن کے علاقے میں دو مساجد ہیں۔ ان میں سے ایک ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی جگہ سے صرف چار بلاک کی دوری پر ہے۔ اس مسجد کے باہر ایک تختی پر لکھا ہے 'مسجد' اور ایک اشاریہ دیا گیا ہے، جو اس کے زیر زمین ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ اس مسجد کے زیرزمین ہونے کے باعث کسی شخص کی توجہ اس طرف نہیں گئی۔
مسلمانوں کا مجوزہ 'کورڈوبا' ہاؤس بھی کسی روایتی مسجد جیسا دکھائی نہیں دے گا۔ یہ ایک 13 منزلہ سٹیل اور شیشے کا ٹاور ہوگا اور اس پر نہ تو کوئی چاند ستارہ بنایا جائے گا اور نہ ہی کوئی اور ایسا نشان، جو یہ ظاہر کرے کہ یہ ایک مسجد ہے۔
اس اسلامی مرکز میں نماز کے لئے مخصوص جگہ کے علاوہ آڈیٹوریم، سوئمنگ پول اور ملاقات کے کمرے بھی ہوں گے۔ اس مسجد کے منتظمین کے مطابق وہ خود بھی مسلم انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ تاہم دوسری جانب ناقدین کی رائے یہ ہے کہ اس جگہ مسجد کی تعمیر سے سن 2001ء میں دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 3000 افراد کے اہل خانہ کے جذبات کو دھچکہ پہنچے گا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : افسر اعوان