میونخ : سی ایس یو کی مہاجرین مخالف پالیسی کے خلاف مظاہرہ
23 جولائی 2018
جرمن شہر میونخ میں قریب پچیس ہزار افراد نے صوبہ باویریا میں چانسلر میرکل کی اتحادی جماعت کرسچین سوشل یونین کے مہاجرت پر سخت موقف کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ باویریا میں تین ماہ بعد ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔
اشتہار
اتوار کے روز میونخ میں ہونے والا یہ مظاہرہ قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچین سوشل یونین کی مقبولیت میں کمی کی ایک اور نشانی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے سامنے آنے والے ایک سروے کے نتائج کے مطابق سی ایس یو کی مقبولیت کی شرح اڑتیس فیصد رہی جبکہ سن 2013 کے صوبائی انتخابات سے قبل یہی شرح 47اعشاریہ سات فیصد تھی۔
مارچ کے منتظمین کا کہنا تھا کہ سی ایس یو ’باعث تفریق غیر ذمہ دارانہ سیاست‘ کر رہی ہے۔ منتظمین نے سی ایس یو کے سربراہ اور جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر اور باویریا صوبے کے وزیر اعلیٰ مارکوس زوئیڈر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دائیں بازو کے نظریات معاشرے میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مظاہرین میں شامل ایک شخص آکسل وائین گائرٹنر نے کہا،’’میں سی ایس یو کے سیاستدانوں کی جانب سے آنے والے ’غیر انسانی‘ بیانات کے خلاف احتجاج کر رہا ہوں۔‘‘
مظاہرے میں شریک افراد کی تعداد پولیس کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار پر مشتمل ہے۔ اس مظاہرے کے بعد سی ایس یو نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے یہ پیغام پوسٹ کیا،’’ یہ مظاہرہ ایک ’سیاسی تخریب کاری‘ تھا۔ باویریا میں رہنے والے جانتے ہیں کہ انہیں سی ایس یو سے کیا چاہیے۔‘‘
انفرا ٹیسٹ پول کے مطابق باویریا میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تارکین وطن اور اسلام مخالف جماعت اے ایف ڈی کی مقبولیت کا گراف بارہ فیصد ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اکتوبر میں باویریا میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں اے ایف ڈی کو پہلی بار صوبائی اسمبلی میں انٹری مل جائے گی۔
ص ح / ع ت / اے پی
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔