’امریکی صدر کو اپنا ہم خیال وزیر دفاع رکھنےکا حق حاصل ہے‘ ان الفاظ کے ساتھ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنا استعفٰی صدر ٹرمپ کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنے اختلاف رائے پر زور دیا ہے۔
اشتہار
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنے استعفی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے امریکی افواج واپس بلانے کے فیصلے کا براہ راست ذکر نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے روایتی اتحادیوں کے ساتھ امریکا کے قریبی تعاون کی اہمیت کی بات ضرور کی ہے، ’’اتحادیوں کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔‘‘ ٹرمپ نے جرمنی جیسے روایتی اتحادی ملک کو بھی اکثر ناراض کیا ہے۔
میٹس کے بقول، ’’آپ کو اپنے ہم خیال وزیر دفاع کا حق ہے۔ اسی وجہ سے میرا اس عہدے سے الگ ہونا ضروری ہے۔‘‘
ٹرمپ کے صدر بننے کے ساتھ ہی ان کی انتظامیہ میں کئی مرتبہ ردو بدل کی جا چکی ہے تاہم میٹس کا مستعفی ہونے کا فیصلہ کچھ خاص نوعیت اور اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ میٹس نے یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا ہے جب امریکا اپنی دفاعی حکمت عملی کو ایک نئے انداز سے ترتیب دے رہا ہے۔
ٹرمپ شام سے امریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ساتھ افغستان میں تعینات امریکی دستوں میں کمی کا اعلان کر چکے ہیں۔ میٹس ٹرمپ کے ان فیصلوں کے مخالف ہیں اور ان کے استعفے کو ایک طرح کا احتجاج بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C. Barria
9 تصاویر1 | 9
ٹرمپ اور میٹس کئی موضوعات پر ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے تھے اور صدر نے کئی مرتبہ اپنے وزیر دفاع کی تجاویز کو نظر انداز کیا ہے۔ مثال کے طور پر وزارت دفاع نے شام سے امریکی افواج کے انخلاء سے خبردار کرتے ہوئے اسے ایک بڑی عسکری غلطی سے تعبیر کیا تھا۔ اسی طرح وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور سلامتی کے امور کے مشیر جان بولٹن نے بھی صدر کو اس اقدام سے منع کیا تھا۔
اس پیش رفت پر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا، ’’جنرل جم میٹس دو سال تک میری انتظامیہ میں بطور وزیر دفاع خدمات انجام دینے کے بعد اعزاز کے ساتھ فروری کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ جم کے دور میں زبردست ترقی ہوئی ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ کے دور میں اب تک وائٹ ہاؤس کے عملے میں درجنوں تبدیلیاں ہو چکی ہیں، جس میں ان کی کابینہ میں ردو بدل بھی شامل ہے۔ مارچ میں ٹرمپ نے ٹویٹر پر ریکس ٹلرسن کو وزیر خارجہ کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا تھا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ہی ٹرمپ نے اپنے وزیر انصاف جیف سیشنز کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ پھر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ چیف آف اسٹاف جان کیلی اور وزیر داخلہ رائن زنکے اس سال کے آخر تک اپنے اپنے عہدے چھوڑ دیں گے۔
بدلتی ہوئی عالمی سياست، ٹرمپ کی نئی افغان پاليسی اور پاکستان