میڈونا کی وجہ شہرت اس کے گیت نہیں
24 جون 2009ملاوی کے شہر زومبا میں کیلے فروخت کرنے والی ایک خاتون علیزہ مینیوزا کہتی ہے کہ اس نے میڈونا کا ایک بھی گانا نہیں سنا لیکن وہ یہ ضرور جانتی ہے کہ میڈونا ایک نفیس خاتون ہے جو اس کے شہر کے بچّوں کی مدد کرنا چاہتی ہے۔
مینیوزا یہ بھی جانتی ہے کہ میڈونا نے تین سال قبل ایک شیرخوار ڈیوڈ بنڈا کو ایک یتیم خانے میں دیکھا اور پھر گود لے لیا۔ مینیوزا کو ابھی ابھی یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ملاوی کی عدالت عظمیٰ نے میڈونا کو ملک سے دوسرا بچّہ گود لینے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ اس مرتبہ یہ ایک بچّی ہے جس کا نام مرسی جیمز ہے۔ مینیوزا نے اس بات پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا کہ بچّی جیمز جمعہ کو میڈونا کے ساتھ رہنے کے لئے لندن روانہ ہو گئی۔
ملاوی میں یتیم بچّوں کا مسئلہ ایک المیہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ حکام کے مطابق ایڈس کے وائرس کے مرض کے باعث 15 لاکھ بچّے یتیم ہو چکے ہیں جو ملک کی مجموعی آبادی کے 10 فیصد کے برابر ہیں۔
وزارت بہبودِ اطفال و خواتین سے وابستہ سائرس جیک کہتے ہیں کہ ملک میں بحران کی سی کیفیت ہے جبکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کافی وسائل دستیاب نہیں ہیں۔
تاہم بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم آئی آف دی چائلڈ کے بونیفیس مینڈیر کا مؤقف ہے کہ حکومت کے پاس بچّوں کی فلاح کے منصوبے چلانے کے لئے مناسب مالی وسائل ہیں۔
میڈونا نے اس حوالے سے متعدد منصوبے شروع کئے ہیں۔ اس نے وہاں "ریزنگ ملاوی" کے نام سے ایک فلاحی ادارے کی بنیاد بھی رکھی ہے۔ اس تنظیم نے ملک میں ایک جدید ہاسٹل قائم کیا ہے۔ یہ اسی یتیم خانے میں بنایا گیا جہاں میڈونا نے ڈیوڈ کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ میڈونا نے ملاوی میں ایک ’’ڈے کیئر‘‘ سینٹر بھی قائم کرکھا ہے۔
انسانی حقوق کے ایک کارکن مووکاسونگرا نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ملاوی میں یتیم بچّوں کی حالت زار کے بارے میں آگاہی کے لئے ایک غیر ملکی کو آنا پڑا ہے جبکہ مقامی سطح پر مسئلے کی سنگینی کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یتیم بچّوں کی فلاح و بہبود کی بنیادی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔