1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میڈیا طاقت کا اظہار، نجم سیٹھی پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ

27 مارچ 2013

پاکستان میں میڈیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں نگران حکومت کے سربراہ کی تقرری پر پیدا ہونے والا ڈیڈ لاک ایک ٹی وی شو کے اینکر اور صحافی نجم سیٹھی کے نام پر ہونے والے اتفاق رائے سے ختم ہوگیا۔

تصویر: AFP/Getty Images

ایک پرائیویٹ ٹیلی وژن چینل سے منسلک نجم سیٹھی کے نام پر اتفاق کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون نے انہیں ماضی میں گرفتار کیا تھا جبکہ انہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے نامزد کیا تھا۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی برطرفی کے بعد قائم ہونے والی نگران حکومت میں نجم سیٹھی مشیر کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ بظاہر نجم سیٹھی کے تجزیوں اور پاکستان میں میڈیا کی بڑھتی ہوئی طاقت نے انہیں ٹیلی وژن اسکرین سے ایوان اقتدار تک پہنچا دیا ہے۔

مرکز کے بعد پنجاب میں بھی مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے مابین نگران حکومت کے سربراہ کی تقرری پر اختلافات تھے۔ سابق وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا تھا لیکن تین دن کی مقررہ مدت کے خاتمے سے تین گھنٹے پہلے تک کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تھی اور مرکز کی طرح یہ معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے پاس جانے والا تھا کہ مسلم لیگ نواز کی قیادت نے سیاسی پسپائی اختیار کرتے ہوئے جیو ٹیلی وژن کے مشہور پروگرام کے اینکر اور انگریزی ہفت روزے فرائیڈے ٹائمز کے مدیر نجم سیٹھی کے نام پر اتفاق کرلیا۔ ان کا نام پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں نے پیش کیا تھا۔

وفاقی حکومت کے نگران سربراہ میر ہزار خان کھوسو کے نام کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کیا گیا تھاتصویر: AFP/Getty Images

1948ء میں پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں پیدا ہونے نجم سیٹھی نگران حکومت کے سربراہوں میں جوان نظر آتے ہیں جہاں چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم 85 سالہ اور نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو 84 سالہ ہیں۔ ان کی تقرری پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی طاقت کا اعجاز بھی ہے جہاں یہ بات کھل کر کی جاتی ہے کہ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی موجودگی میں کوئی بھی مہم جوئی کی جرات نہیں کرسکتا۔

اپنی طویل صحافتی زندگی میں نجم سیٹھی نے 1996ء میں اس وقت کے صدر فاروق لغاری کی جانب سے بنائی جانے والی نگران حکومت میں بھی وزیر اعظم کے مشیر کا عہدہ سنبھالا تھا جنہوں نے کرپشن کے الزام پر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرکے آصف علی زرداری کو جیل میں ڈالا تھا جبکہ میاں نوازشریف کے دور حکومت میں نجم سیٹھی کو بھارت میں ایک تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

تقریب حلف برداری کے بعد پنجاب کے نگران وزیر اعلی نجم سیٹھی ٰ نے کہا کہ وہ میڈیا سے ہیں اور ان سے مدد چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرپشن اور اقربا پروری برداشت نہیں کی جائے گی۔ لیکن سینیئر صحافی اور پی ایف یو جے کے سابق سیکرٹری جنرل مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی میں اتفاق رائے ہوبھی گیا تھا تو نجم سیٹھی کو حکومتی عہدہ قبول کرنے سے انکار کردینا چاہیے تھا، اس سے ان کی عزت اور وقار میں مزید اضافہ ہوتا۔ انہوں نے اس سے بھی اتفاق نہیں کیا کہ ایک ممتاز تجزیہ نگار کے جنہیں کروڑوں افراد سنتے ہیں، حکومت میں جانے سے میڈیا کی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ بلکہ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کی قوت میں کمی ہوئی ہے اور صحافتی تنظیموں اور میڈیا ہاﺅسز کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے۔ مظہر عباس کے مطابق اس فیصلے سے ایک آزاد تجزیہ نگار کی حیثیت سے بھی نجم سیٹھی کا تشخص مجروح ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کے ایوب خان کی کابینہ میں وزارت لینے سے اب تک کئی صحافی جن میں مشاہد حسین سید ملیحہ لودھی اور حسین حقانی شامل ہیں حکومتی عہدے لیتے رہے ہیں۔

پنجاب میں بھی مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے مابین نگران حکومت کے سربراہ کی تقرری پر اختلافات تھےتصویر: AP

پاکستان یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری مظہر عباس کا مزید کہنا ہے، ’’بعض صحافی ماضی کے ادوار سے سیاست کو پیشہ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں لیکن پھر انہیں اعلان کرنا چاہیے کہ انہوں نے صحافت چھوڑ دی ہے۔ ورنہ یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ صحافت کو، قلم کو اور اپنی آواز کو ایک سیاسی سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اقتدار کے بعد جب بحران آتا ہے تو آپ پھر واپس آ جاتے ہیں۔ جو کوئی بھی سرکاری حکومتی پوزیشن لے لیتا ہے بد قسمتی سے واپسی پر اس سے سوال تک نہیں اٹھایا جاتا۔ نجم سیٹھی کے حکومتی عہدہ سنبھالنے سے صحافت مضبوط نہیں ہوئی بلکہ نقصان پہنچا ہے۔‘‘

نجم سیٹھی کے رسالے کے سابق کالم نگار اور جناح انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر رضا رومی نے تسلیم کیا کہ صحافیوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اقتدار کے حصول کا سوچیں۔ لیکن نجم سیٹھی کے نگران وزیر اعلیٰ کا منصب قبول کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نجم سیٹھی اپنے کیریئر کے عروج پر ہیں ان کی طویل پیشہ ورانہ خدمات کے بعد نگران حکومت میں شامل ہونا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ انہوں نے کوئی عام حکومتی امور سر انجام نہیں دینے بلکہ صاف شفاف انتخابات کرانے ہیں اور اگر سب سے بڑے صوبے میں سیاسی ڈیڈ لاک ان کی وجہ سے حل ہوگیا تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا تھا۔ رضا رومی کے مطابق، ’’میڈیا ایک طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے اور صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے اگر وہ کسی جماعت میں شامل ہوتا ہے تو اس کی غیر جانبداری ختم ہوجاتی ہے۔ نجم سیٹھی دو مہینے کی اسائنمنٹ پر ہیں نہ وہ پالیسی بنارہے نہ نوکریاں دے رہے ہیں اور نہ ہی ٹھیکے دے رہے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار تو یہی ہوتا کہ نوکریاں اور ٹھیکے دیں اور پیسے بنائیں۔‘‘

تاہم مظہر عباس اور رضا رومی دونوں کا شکوہ تھا کہ بعض اینکرز اور کالم نگار سیاستدانوں اور حکومتوں کے مشیر کا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور اپنے غیر جانبدار ہونے کے بھی دعویدار رہتے ہیں، حالانکہ ان کی تحریریں اور گفتگو روزانہ ان کی جانبداری کا پول کھول دیتی ہیں۔

جائزہ: محسن رضا، کراچی

ادارت: افسر اعوان

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں