’میڈیا کشمیر کی جو تصویر پیش کر رہا ہے اس پر یقین نہ کریں‘
5 فروری 2020زائرہ وسیم نے لکھا ہے کہ ''کشمیر مسلسل پریشانیوں سے دوچار ہے۔ کشمیر نے امن کا ایک جھوٹا اور پریشان کن نقاب پہن رکھا ہے اور امید و مایوسی کے درمیان لٹک رہا ہے۔ کشمیریوں کی مایوسی اور مصائب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آخر ہمیں ایسی دنیا میں رہنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے، جہاں ہماری حیات و خواہشات کو قابو کیا جاتا ہے۔ ہمیں بس احکامات پر احکامات ملتے ہیں اور جھکنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید لکھا، ''آخر ہماری آوازوں کو خاموش کرنا اتنا آسان کیوں ہے؟ ذاتی آزادی پر پابندیاں عائد کرنا آسان کیوں ہے؟ ہمیں ہمارے خیالات کے اظہار کی آزادی کیوں نہیں ہے؟ آخر ہم ایسے فیصلوں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھا سکتے، جو ہماری مرضی کے بغیر ہم پر تھونپےگئے ہیں۔‘‘
انھوں نے لکھا کہ ''کشمیر کے حوالے سے بھارتی میڈیا پر، جو تصویر کشی کی جا رہی ہے، اس پر آپ ہرگز یقین نہ کریں۔ سوالات پوچھیے اور جو دعوے کیے جا رہے ہیں ان کے بارے میں سوال اٹھایے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ہماری آواز کب تک کے لیے خاموش کی گئی ہے۔‘‘
عامر خان کی معروف فلم دنگل کے ساتھ زائرہ وسیم نے بالی ووڈ میں انٹری لی تھی۔ اس کے بعد چند اور فلموں میں کام کرنے کے بعد انہوں نے یہ کہہ کر فلمی دنیا ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ فلموں میں کام کرنے کے سبب وہ اپنے مذہب سے بھٹک گئی تھیں۔ اس کے بعد سے انہوں نے فلموں میں اداکاری نہیں کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ان کے دیے گئے بیانات کی وجہ سے بھارتی سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر بحث شروع ہو چکی ہے۔
دوسری جانب بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے دو مزید سیاسی رہنماؤں کو حراستی مرکز سے نکال کر انہیں ان کے گھروں کو بھیج دیا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کی قید کے بعد حکومت نے بدھ پانچ فروری کو پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی میں یوتھ ونگ کے رہنما وحید پرّا کو حکومت کے حراستی مرکز سے نکال کر ان کے گھروں میں متنتقل کر دیا گیا ہے۔ لیکن وہ اب بھی آزاد نہیں ہیں اور گھروں میں نظر بند ہی رہیں گے۔ اسی ہفتے بعض دیگر رہنماؤں کو بھی حراستی مرکز سے نکال کر انہیں ان کے گھروں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ نئی دہلی حکومت کے مطابق کشمیر کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے اور عائد کی گئی پابندیاں بتدریج ختم کی جا رہی ہیں۔
بھارتی حکومت نے گزشتہ برس اگست میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثيت ختم کرتے ہوئے اس کا ریاستی درجہ ختم کر دیا تھا اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ سیاسی مخالفت سے بچنے کے لیے حکومت نے ریاست کے بیشتر سیاسی رہنماؤں، وکلاء اور سرکردہ شخصیات کو قید کر دیا تھا۔ ان میں سے کچھ افراد کو رہا کیا گيا ہے تاہم تین سابق وزارائے اعلی سمیت بیشتر افراد اب بھی قید میں ہیں۔
سجاد لون کے والد عبدالغنی لون ایک علیحدگی پسند رہنما تھے، جن کا سن 2002 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ سحاد لون نے سن 2014 میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی اور انہیں اپنا ’بڑا بھائی قرار‘ دیا تھا۔ ریاست کی گزشتہ مخلوط حکومت میں سجاد لون کو وزارت بھی سونپی گئی تھی۔ انہیں مرکز میں حکمراں جماعت بی جے پی اور اس کے رہنماؤں سے قریب سمجھا جاتا ہے۔