”اس سے تو میڈیکل سسٹم کا ’کھچڑی فیکیشن‘ ہوجائے گا“
25 نومبر 2020آیوروید ڈاکٹروں کی تنظیم نے تاہم اس اعتراض کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے حکومت کے فیصلے کو دیہی اور دور افتادہ علاقوں نیز غریبوں تک علاج کی سہولت فراہم کرنے کے حکومت کے اقدام کی تعریف کی اور اس فیصلے کی مخالفت کرنے والوں کو 'ملک دشمن‘ قرار دیا۔
ملک سے بغاوت
بھارت میں آیوروید ڈاکٹروں کی ملک گیر تنظیم انٹیگریٹیڈ میڈیکل ایسوسی ایشن 'آیوش‘ کے قومی صدر ڈاکٹر آر پی پراشر نے اس حوالے سے ڈ ی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی نوٹیفیکیشن سے اب یہ طے ہوگیا ہے کہ آیوروید ڈاکٹر اگر سرجری کر رہے ہیں تو یہ پوری طرح قانونی ہے،”اگر ایلوپیتھی والے یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی سرجری کر سکتے ہیں تو یہ بے وقوفی ہے۔ اگر حکومت کے اقدام سے عوام کو صحت کی سہولیات مل رہی ہیں تواس سے انہیں کیا پریشانی ہے؟ یہ تو حکومت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ یہ تو ملک سے بغاوت کے مترادف ہے۔ کسی باغی سے تو صرف چند لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے لیکن ایلوپیتھ ڈاکٹرو ں کے اس رویے سے توپورے بھارت کے ان تمام لوگوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، جو گاؤں اور دور افتادہ علاقوں میں رہتے ہیں۔"
ڈاکٹر پراشر کا مزید کہنا تھا،”آج بھارت کے دیہی علاقوں میں قائم بیشتر پرائمری ہیلتھ سینٹرز میں کوئی ڈاکٹر نہیں ملتا ہے۔ کیوں کہ ایلوپیتھ ڈاکٹر وہاں جانا نہیں چاہتے۔ حالانکہ حکومت نے ان کے لیے کئی مراعات کا اعلان کیا اور کئی مرتبہ تنبیہ بھی کی۔ ایسے میں اگر گاؤں میں کسی شخص کو چوٹ لگ جائے اور آیوروید ڈاکٹر اسے دو چار ٹانکے لگا کر علاج کر دے تو اس میں کیا قباحت ہے۔"
اس سے تو علاج کھچڑی بن جائے گی
بھارت میں ایلوپیتھ ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) نے آیوروید ڈاکٹروں کو سرجری کی اجازت دینے سے متعلق نوٹیفکیشن کی مذمت کی ہے اور اسے فوراً واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے تو پورا طبی نظام ہی کھچڑی بن جائے گا۔
آئی ایم اے کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر آر وی اشوکن کا کہنا تھا، ”یہ صرف پروفیشن کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تو ملک کے ہیلتھ کیئر کے نظام میں سنگین مداخلت ہے۔ ڈاکٹر کئی برس کی تربیت کے بعد اس لائق بنتے ہیں کہ وہ کسی مریض کی سرجری کر سکیں۔ لیکن مریض کے پسند کے طریقہ علاج کے نام پر اس طرح کا فیصلہ تمام طریقہ علاج کو خلط ملط کرنے کے کوشش ہے۔"
آئی ایم اے کے سکریٹری جنرل کا کہنا تھا،”یہ میڈیکل ایجوکیشن اور پریکٹس میں مکسوپیتھی اور کھچڑی فیکیشن کی کوشش ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے بھارت کی پوری میڈیکل برادری خود کو ایسا محسوس کر رہی ہے، جسے انہیں کسی نے دھوکہ دیا ہو۔ دنیا بھر میں بھارت کے طبی شعبے کا معیار اور ڈاکٹروں کا وقار ہے۔ اس طرح کی وراثت اور قیادت سے خود کو محروم کرنے کا مقصد کیا ہے؟"
معاملہ کیا ہے؟
دراصل بھارت میں روایتی طریقہ علاج کی وزارت'آیوش‘ نے 20 نومبر کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کے ماسٹر آف سرجری کی ڈگری رکھنے والے آیوروید ڈاکٹروں کو بھی 39 اقسام کی جنرل سرجری سمیت آنکھ، کان، ناک اور گلے سے متعلق 19طر ح کی سرجری کی اجازت دے دی۔ اس کی مخالفت ہونے پر وزارت آیوش نے گوکہ وضاحت بھی پیش کی تاہم آئی ایم اے نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وزارت آیوش کے تحت آیوروید سمیت چھ بھارتی طریقہ علاج یونانی، یوگا، نیچروپیتھی، سدھا اور ہومیوپیتھی شامل ہیں۔
یونانی ڈاکٹروں کا شکوہ
ادھر یونانی طریقہ علاج کرنے والوں کی اپنی ایک الگ شکایت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزارت آیوش کے تحت حالانکہ یونانی طریقہ علاج بھی شامل ہے لیکن حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یونانی طریقہ علاج کو نظر انداز کردیا۔
یونانی ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے قومی جنرل سکریٹری ڈاکٹر سید احمد خان کا ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے کہنا تھا، ”جس طرح آیوروید کالجوں میں سرجری کی تعلیم دی جا رہی ہے اسی طرح یونانی کالجوں میں بھی اس کی تعلیم وتربیت دی جاتی ہے پھر آخر دونوں میں تفریق کیوں کی گئی؟ حکومت جب بھی کوئی سرکاری حکم نامہ جاری کرے تو اس میں آیوروید کے ساتھ طریقہ علاج کو بھی شامل کرے ورنہ غلط پیغام جائے گا۔"
خیال رہے کہ مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے آیوروید کی ترویج و اشاعت پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس جاپان میں منعقدہ جی ٹوئنٹی کانفرنس میں بھی آیوروید اور بھارت کے دیگر روایتی طریقہ علاج کا خصوصی طورپر ذکر کیا تھا۔
حکومت آیوروید کے متعلق غیر یقینی دعوے بھی پیش کرتی رہی ہے۔ وزیر آیوش نے چند ماہ قبل یہ دعوی کیا تھا کہ برطانیہ کے ولی عہد پرنس چارلس آیوروید دواؤں کا استعمال کر کے کووڈ۔19سے صحت یاب ہو گئے۔ پرنس چارلس کے دفتر نے اس خبر کو 'غلط‘ قرار دیتے ہوئے ایک بیان جاری کر کے کہا تھا، ”یہ اطلاع غلط ہے۔ پرنس آف ویلس صرف برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے طبی مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔"