میکسیکو: زلزلے کے بعد سمندری طوفان، کم از کم 61 ہلاکتیں
9 ستمبر 2017
میکسیکو میں آنے والے طاقتور زلزلے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم اکسٹھ ہو گئی ہے۔ دوسری جانب ایک سمندری طوفان بھی اس ملک کی جانب گامزن ہے، جس کے ٹکرانے سے مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
اشتہار
میکسیکو میں 8.1 شدت کے زلزلے کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم اکسٹھ تک پہنچ گئی ہے جبکہ حکام کی جانب سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ میکسیکو کی تاریخ میں آنے والے شدید ترین زلزلوں میں سے ایک تھا۔ اس ملک میں گزشتہ آٹھ دہائیوں کے دوران آنے والا یہ شدید ترین زلزلہ تھا۔
جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب آنے والے اس زلزلے کی وجہ سے متعدد عمارتیں منہدم ہو گئی تھیں۔ میکسیکو حکام کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ صوبے اوکساکا اور جوختین میں کم از کم چھتیس افراد ہلاک اور 250 زخمی ہوئے ہیں۔
ایک تینتالیس سالہ متاثرہ خاتوں روزا ایلبا کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مکانوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی گر گئے ہیں۔ کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ ہم زلزلوں کے عادی ہیں لیکن یہ بہت ہی شدید تھا۔‘‘ میکسیکو میں سن 1985 میں آنے والے ایک زلزلے کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
میکسیکو کے امدادی ادارے ابھی زلزلے کے متاثرین کو مدد فراہم کرنے میں مصروف ہیں لیکن اب اس ملک کو ایک دوسری قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت نے امدادی اداروں کو دوہری ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے احکامات جاری کر دیے ہیں کیوں کہ ایک طاقتور سمندری طوفان اس ملک شمالی حصے سے ٹکرانے والا ہے۔ کاٹیا نامی سمندری طوفان کے ساتھ 185 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں بھی تھیں لیکن اب اس کی شدت میں انتہائی کمی واقع ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود موسلادھار بارشوں سے مٹی کے تودے گرنے کے علاوہ سیلابی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
اس وقت بحر اوقیانوس میں تین سمندری طوفان گردش کر رہے ہیں اور ان میں سے سب سے طاقتور ’ارما‘ سمندری طوفان ہے، جو اس وقت امریکی ریاست فلوریڈا کی جانب گامزن ہے۔
میکسیکو میں آنے والے زلزلے کا مرکز ٹپاچولا شہر سے 165 کلوميٹر مغرب کی طرف اور پينتيس کلوميٹر کی گہرائی ميں تھا۔ زلزلے کے بعد وسطی امريکا کے متعدد ممالک بشمول السلواڈور، کوسٹا ريکا، گوئٹے مالا، نکاراگوا، پاناما اور ہنڈوراس کے ليے سونامی کی وارننگ جاری کر دی گئی تھی۔
قدرتی آفات میں لاکھوں اموات، بچا کیسے جائے؟
چار سال پہلے ایک بڑی قدرتی آفت کا شکار ہونے والے جاپان میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں پیشگی حفاظتی تدابیر پر بات کی جا رہی ہے کیونکہ مؤثر انتباہی نظاموں کے باوجود اکثر یہ انتباہ بہت تاخیر سے متاثرین تک پہنچ پاتا ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
پاکستان میں آنے والا شدید سیلاب
29 جولائی 2010ء کو دریائے سوات میں آنے والے سیلاب نے بہت سے مکانات تباہ کر دیے یا پھر پانی کی منہ زور لہریں اُنہیں بہا کر اپنے ساتھ لے گئیں۔ شمالی پاکستان کے اس خطّے کے لیے یہ بہت بڑی تباہی تھی کیونکہ اس خطے میں پہلے ہی زلزلوں کا بھی ڈر رہتا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ یا پہلے سے خبردار کرنے والے نظام عنقا ہیں۔ پیشگی انتباہی نظام امدادی تنظیمیں نصب کر رہی ہیں جبکہ سرکاری امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
فلپائن میں ہائیون نامی طوفان کی تباہ کاریاں
نومبر 2013ء میں 380 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار کی حامل ہواؤں کے ساتھ ہائیون نامی طوفان فلپائن کو روندتا ہوا گزرا۔ اس ملک میں آنے والے طاقتور ترین طوفانوں میں شمار ہونے والے ہائیون کی زَد میں آ کر چھ ہزار سے زیادہ انسان مارے گئے۔ فلپائن کے شہریوں نے اس طوفان سے سبق سیکھتے ہوئے اب پُر خطر علاقوں میں مضبوط مکانات بنانے شروع کیے ہیں اور بر وقت انخلاء بھی اب ممکن ہو سکے گا۔
تصویر: DW/R.I. Duerr
تباہ کاری کے نتائج عشروں پر پھیلے ہوئے
مارچ 2011ء میں جاپان میں آنے والے شدید زلزلے اور اُس کے بعد سمندر میں اُٹھنے والی سونامی لہروں کی زَد میں آ کر پندرہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ ساحل پر بنے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کی تباہی سے وسیع تر علاقے تابکاری کی زَد میں آ گئے۔ ایٹمی توانائی ترک کرنے کی بجائے حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کا فیصلہ ہوا۔ فعال ایٹمی ری ایکٹر گنجان آباد علاقوں میں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
دنیا کا خطرناک ترین خطّہ
فروری 2010ء میں ایک طاقتور زلزلے نے چلی کے ساحلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس زلزلے کے بعد حکام نے پیرو تک کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو سونامی لہروں سے خبردار کیا لیکن تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود آٹھ سو انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ چلی میں خاص طور پر زلزلوں کا ڈر رہتا ہے۔ دنیا بھر میں نوّے فیصد زلزلے اِسی خطّے میں آتے ہیں۔
تصویر: Reuters
خطرات کم ہوتے نظر نہیں آتے
بحیرہٴ کیریبین میں واقع ملک ہیٹی میں 2010ء میں ریکٹر اسکیل پر سات کی طاقت کے ایک شدید زلزلے نے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں کو موت کی نیند سُلا دیا تھا۔ تب ہیٹی کے ایک ملین شہری بے گھر ہو گئے تھے۔ ہیٹی کے حکام آج بھی اس قابل نہیں ہیں کہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں تمام متاثرین کو پیشگی خبردار کر سکیں۔ جنگلات کی کٹائی اور شدید بارشوں کے نتیجے میں اس ملک میں ہر وقت زمینی تودے گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔
تصویر: A.Shelley/Getty Images
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں قدرتی آفات؟
بارہ مئی 2008ء کو جنوبی چینی صوبے سیچوان میں ایک شدید زلزلے کے باعث 80 ہزار انسان مارے گئے، جن میں وہ ہزاروں بچے بھی شامل تھے، جو زلزلے کے وقت اپنی کلاسوں میں تھے۔ زلزلے کا مرکز ایک بڑے شہر کے قریب کئی کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ بعد میں بھی وہاں مسلسل زلزلے آتے رہے۔ ماہرین کا اندازہ ہےکہ ان زلزلوں کی وجہ وہ بے پناہ دباؤ ہے، جو قریبی زی پنگ پُو ڈیم میں تیز رفتاری کے ساتھ پانی بھرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
تصویر: China Photos/Getty Images
میانمار میں ’نرگس‘ کے نتیجے میں سیلاب
2008ء میں مئی کی ایک قیامت خیز رات میں ’نرگس‘ نامی طوفان نے میانمار کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی۔ سیلاب کی بلند لہروں سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایک لاکھ چالیس ہزار انسان لقمہٴ اجل بن گئے۔ چونکہ فوجی حکومت نے بین الاقوامی امداد متاثرین تک پہنچنے نہیں دی تھی، اس لیے قدرتی آفت کے بعد بھی لوگ عرصے تک مصائب کا شکار رہے۔
تصویر: Hla Hla Htay/AFP/Getty Images
زلزلے نے کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا
اکتوبر 2005ء میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد کے قریب ایک زلزلے نے 30 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس کے اثرات بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔ گنجان آباد علاقوں میں 84 ہزار انسان موت کا شکار ہو گئے۔ زلزلے کے دو مزید طاقتور جھٹکوں اور طوفانی بارشوں نے متاثرین کو اَشیائے ضرورت کی فراہمی مشکل بنا دی۔ اس کے بعد امدادی تنظیموں نے پیشگی انتباہی نظام نصب کیے۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. J. Brown
قیمتی گھنٹے ضائع کر دیے گئے
26 دسمبر 2004ء کو بحر ہند میں 9.1 قوت کے ایک زلزلے نے بلند سونامی لہروں کو جنم دیا، جنہیں انڈونیشیا، سری لنکا، بھارت اور تھائی لینڈ کے ساحلوں سے ٹکرانا تھا۔ امریکی محققین آٹھ منٹ بعد ہی جان گئے تھے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے لیکن کئی گھنٹے بعد دو لاکھ تیس ہزار بے خبر انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ 2005ء میں پیشگی انتباہی نظام پر کام شروع ہو گیا لیکن بچاؤ کے انتظامات ابھی بھی ناکافی تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں صدی کا گرم ترین موسم گرما
2003ء میں یورپ کا موسم گرما غیر معمولی طور پر گرم تھا۔ اگست میں درجہٴ حرارت 47.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا، جو کہ اس براعظم کے لیے ایک ریکارڈ تھا۔ ستّر ہزار ہلاکتیں ہوئیں، بہت سے جنگلات میں آگ لگ گئی، دریا خشک ہو گئے اور کھیت ویران ہو گئے۔ موسمیاتی ماہرین کے خیال میں زمینی درجہٴ حرارت بڑھنے کی وجہ سے خشک سالی، طوفانی ہواؤں اور مسلسل بارشوں جیسے انتہائی موسم آگے چل کر ایک معمول بن سکتے ہیں۔