میکسیکو سے امریکا آنے والے تارکین وطن ’حملہ آور‘ ہیں، ٹرمپ
25 جون 2018
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارڈر پر بچوں کو اُن کے والدین سے جدا کرنے کی اپنی پالیسی شاید بدل بھی دیں تاہم امیگریشن پر اُن کا سخت موقف برقرار رہے گا۔ سول حقوق کے کارکنان نے ٹرمپ کے تازہ ترین ٹویٹ کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
اشتہار
اتوار کے روز سلسلہ وار ٹویٹ پیغامات میں صدر ٹرمپ نے میکسیکو سرحد سے امریکا کی حدود میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو ’حملہ آور‘ قرار دیا جو اُن کے ملک میں ’نقب لگانے‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں یہ بھی کہا کہ ایسے غیر قانونی مہاجرین کو کوئی عدالتی کارروائی کیے بغیر واپس اُن کے ملک بھیج دیا جائے گا۔
ٹرمپ کے ٹویٹ کے مطابق،’’ جب کوئی فرد امریکی سرحد پار کرے تو اسے کسی بھی عدالتی کارروائی کے بغیر واپس اُن کے ملک بھیج دینا چاہیے۔‘‘
امریکا میں شہری حقوق کے حامیوں نے اس پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایسا اقدام ملکی آئین کے منافی ہو گا۔‘‘
صدر ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے حالیہ ٹویٹس تارکین وطن کے حوالے سے اُن کے سخت ترین موقف کی تازہ مثال ہیں۔ اس موقف کی اخلاقیات کے حوالے سے ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔
تارکین وطن خاندانوں سے بچوں کی جبری علیحدگی کی امریکی پالیسی کو عالمی و ملکی سطح پر تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد ٹرمپ نے اس پالیسی کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے ختم کر دیا تھا۔ تاہم امریکی صدر کی یہ پالیسی کہ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کو جرم قرار دیتے ہوئے ایسے تارکین وطن پر مقدمات چلانے کی پالیسی اپنی جگہ قائم ہے جو ٹرمپ کی اس معاملے میں ’’صفر برداشت‘‘ کو ظاہر کرتی ہے۔
گزشتہ روز امریکی ڈپارٹمنٹ برائے ہوم لینڈ سیکیورٹی کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق اب تک تارکین وطن والدین سے جدا کیے گئے پانچ سو بچوں کو اپنے والدین کے پاس بھیج دیا گیا ہے جبکہ ابھی بھی دو ہزار سے زائد بچے حکام کی تحویل میں ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مہاجرت کی پالیسی کے حوالے سے جرمن چانسلر میرکل کے بھی بڑے ناقد رہے ہیں۔ انہوں نے 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کے فیصلے کو ایک بہت بڑی غلطی سے تعبیر کیا تھا۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسیاں
بیدخل کیے جانے والے میکسیکن کی واپسی لیکن نئی شروعات کیسے
امریکی صدر کے حکم پر غیرقانونی میکسیکن مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی واپس بھیجے جانے والے مہاجرین نصف سے زائد زندگی امریکا میں بسر کر چکے ہیں۔ ہر ہفتے ایسے مہاجرین کے تین ہوائی جہاز میکسیکو سٹی پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Blackwell
ایک تلخ واپسی
امریکا میں مقیم غیرقانونی مہاجرین کو میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر ہوائی جہاز پر سوار کرایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے اترنے سے بیس منٹ قبل یہ ہتھکڑیاں کھول دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
غیرقانونی اجنبی
جورج نینو کو اُس وقت پتہ چلا کہ وہ امریکا میں ایک غیرقانونی مہاجر ہے، جب اُس کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی۔ اُسے حکام نے سوشل سکیورٹی نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ جورج کے والدین اُسے کم عمری میں امریکا لائے تھے۔ بچپن سے امریکا میں زندگی بسر کرنے والا جورج پانچ برس قبل بیدخل کر کے میکسیکو پہنچا دیا گیا۔ وہ چونتیس برس امریکا میں رہا۔ اُس کے چار بچے جو سابقہ بیوی کے ساتھ امریکی شہر فریزنو میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک غیر ملک
ماریا ہیریرا ستائیس برس کی ہے، اُسے امریکی حکام نے رواں برس دس اپریل کو ڈی پورٹ کیا۔ وہ امریکا میں اپنے قیام میں توسیع کے لیے ویزے کا انتظار کر رہی تھی کہ گرفتار کر لی گئی۔ وہ تین برس کی عمر میں میکسیکو سے امریکا پہنچی تھی۔ اب امریکا کی طرح میکسیکو بھی اُس کے لیے اجنبی دیس ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی شروعات
ماریا کی جورج سے ملاقات ایک غیرسرکاری تنظیم نیو کومینزوس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ یہ تنظیم غیر ملکیوں کی معاونت کرتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اس سے بھی بےخبر تھے کہ ایک دن انہیں میکسیکو سٹی میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا ہو گی۔ امریکا میں ماریا کو گرفتاری کے بعد ڈیپرشن کا بھی سامنا رہا۔ اب وہ نئی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
گرفتاری اور ملک بدری
ڈیگو میگوئل کی عمر سینتیس برس ہے، اُس کو سابقہ گرل فرینڈ کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں سن 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میگوئل کو امریکی حکام نے سن 2016 میں ملک بدر کر دیا۔
تصویر: DW/S. Derks
ٹرمپ اور اُس کی دیوار
پانچ ملک بدر کیے گئے میکسیکن شہریوں کو حکومت نے مالی معاونت کی اور اب وہ چھپائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی تیار کردہ ٹی شرٹس اور بیگز پر ’ٹرمپ اور اُن کی دیوار‘ لکھا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
مددگار ہاتھ
ڈیگو کے پاس کوئی بہت بڑی تنخواہ والی نوکری نہیں لیکن اپنے محدود وسائل کے ساتھ وہ میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر ملک بدر کیے گئے ہم وطنوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ایسے افراد کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ وہ بھی امریکا سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ اُسے میکسیکو میں اپنا جدا ہو جانے والا بیٹا بہت یاد آتا ہے، جو اُس کی سابقہ بیوی کے ساتھ امریکا ہی میں مقیم ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی ابتدا ہو گئی ہے
ڈینئل سونڈوان کو رواں برس فروری میں امریکا سے بیدخل کیا گیا۔ وہ بہت مطمئن ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا میں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت کم سوچتا تھا کیونکہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اُسے شناختی دستاویزات کی ضرورت تھی، جو اُس کے پاس نہیں تھیں لیکن اس بیدخلی کے بعد میکسیکو میں وہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
اطمینان سے آبادکاری
ڈینئل سونڈوان ایک پرنٹ شاپ کے اوپر رہ رہا ہے۔ ایک پادری نے اُس کی ابتدائی رہائش کا بندوبست کیا تھا۔ وہ میکسیکو سٹی میں ایک پچھتر برس کی خاتون کے گھر پر دو ہفتے مقیم رہا۔ اب بیدخل کیے جانے والے افراد کی مقامی تنظیم ڈی پورٹاڈوس کے تعاون سے وہ ایک نئی رہائش گاہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
بیدخلی کا روشن پہلو
بہت سارے بیدخل کیے جانے والے اپنی ساری جمع پونجی امریکا میں ہی چھوڑ چکے ہیں۔ کئی ایسے افراد کہتے ہیں کہ جو چھن چکا ہے، وہ سب کچھ نہیں تھا۔ یہ لوگ اپنے ملک میں قانونی شہری ہیں اور وہ کسی خوف کے بغیر جی رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔