1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سائنسشمالی امریکہ

میکسیکو میں ’پرامن مگر باتونی ڈائنوسار‘ کی باقیات کی دریافت

14 مئی 2021

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ڈائنوسار کی جس قسم کا استخوان انہیں ملا ہے، وہ انتہائی نیچی آواز کو سننے کی بھی صلاحیت رکھتا تھا۔ اسی لیے ڈائنوسار کی اس نسل کو ’پرامن اور باتونی‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔

Arackar Licanantay Dinosaurier Atacama Wüste
تصویر: Museo Nacional De Historia Natural/REUTERS

علم رکازیات (قدیمی حیات کے استخوان کا مطالعہ) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈائنوسار کی اس نئی قسم کا ایک ڈھانچہ شمالی میکسیکو سے دس سال قبل ملا تھا۔ اس پر کی گئی ریسرچ کے نتائج اب جاری کیے گئے ہیں۔ اس ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ شمالی میکسیکو میں جس ڈائنوسار کا استخوان ملا تھا، اس نسل کے جانور قریب تہتر ملین برس قبل زمین پر پائے جاتے تھے۔

ڈائنوسار کی نئی قسم دریافت

ڈائنوسار کی تاریخی اہمیت

تہتر ملین برس پرانے اس ڈائنوسار کا نام 'ٹلاٹولوفَس گالورم‘ (Tlatolophus galorum) ہے۔ اس کے استخوان سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس جانور کی صورت اس نشان جیسی ہوتی تھی، جو میسو امریکی لوگوں کے زیر استعمال تھا۔

ڈائنوسار کی اس نئی قسم کا ایک ڈھانچہ شمالی میکسیکو سے دس سال قبل ملا تھاتصویر: INAH/AFP

میسو امریکی سے مراد وہ قدیمی تاریخی اور ثقافتی علاقہ تھا، جو وسطی میکسیکو، بیلیز، گوئٹے مالا، السلواڈور، ہونڈوراس، نکاراگوآ اور کوسٹا ریکا پر مشتمل تھا، اور جہاں بسنے والے باشندے میسو امریکن قرار دیے جاتے تھے۔ یہ نشان میسو امریکن لوگوں کے مخطوطات میں ملا تھا۔

جرمنی کا ’ڈائنوسار‘: رالف مارٹن شمٹس

تحقیق کا آغاز

علم رکازیات کے ماہرین نے اس بارے میں اپنی تحقیق کا آغاز سن 2013 میں کیا تھا۔ اس میں میکسیکو کے دو اداروں نیشنل انسٹیٹیوٹ فار اینتھروپالوجی (INAH) اور نیشنل آٹونامس یونیورسٹی (UNAM) کے ماہرین شامل تھے۔ سب سے پہلے اس ڈائنوسار کی دُم میکسیکو کی ریاست کوویلا سے دریافت ہوئی تھی۔ ایک ماہر الیخاندرو رامیریز کا کہنا ہے کہ دُم کے ملنے کے بعد ہی اس ڈائنوسار کے مکمل ڈھانچے کی دریافت کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اندازے سے مسلسل کھدائی کی جاتی رہی اور انجام کار اس استخوان کو تلاش کر لیا گیا۔

سائنسدان ڈائنوسار کے استخوان کے پاس بیٹھے بنیادی معلومات جمع کر رہے ہیںتصویر: INAH/AFP

اس نئے ڈائنوسار کے بارے میں ریسرچ ایک اہم سائنسی جریدے 'کریٹیشیس ریسرچ‘ میں شائع ہوئی ہے۔ نیشنل آٹونامس یونیورسٹی نے اس دریافت کو میکسیکو میں رکازیات کے شعبے میں ایک بڑی پیش رفت سے تعبیر کیا ہے۔ یونیورسٹی کے مطابق دریافت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوویلا خطے کا وہ قدیمی دور کئی اہم واقعات سے عبارت تھا۔

ایک 'باتونی‘ ڈائنوسار

ریسرچرز کا کہنا ہے کہ دریافت کیا گیا ڈائنوسار سبزی خور تھا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہتر سے تہتر ملین برس قبل انتہائی بڑی جسامت کے مگر ناپید ہو جانے والے اس سبزی خور ڈائنوسار کی باقیات میں پانی کی موجودگی بھی پائی گئی۔ ماہرین کے خیال میں اس سبزی خور ڈائنوسار کے مرنے کے بعد اس پر مٹی کی تہہ بہت تیزی کے ساتھ جمتی چلی گئی تھی۔

ڈائنوسار کا نایاب ڈھانچہ دو ملین یورو میں نیلام

ماہرین نے اس جانور کے نام کی ترکیب 'ٹلاٹولوفَس گالورم‘ کی تشریح بھی کی ہے۔ ٹلاٹولوفَس میکسیکو کی قدیمی زبان اور یونانی زبان کے ایک لفظ، جس کا مطلب سینہ یا چھاتی ہے، سے بنایا گیا ہے۔ نام کا دوسرا حصہ 'گالورم‘ دراصل گالورم ریسرچ میں شریک سائنسدانوں سے متعلق حوالہ ہے۔

میکسیکو کے علاقے کوویلا میں زمین کی گہرائی میں سے ڈائنوسار کا ڈھانچہ ملا تھاتصویر: INAH/AFP

سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سبزی خور ڈائنوسار کی سماعت بہت تیز تھی اور وہ انتہائی کم فریکوئنسی والی آوازوں کو بھی سن لینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ایک 'پرامن اور باتونی یا زیادہ بولنے والا‘ ڈائنوسار تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی بہت زوردار آوازیں بھی نکال سکتا تھا، جن سے دور و نزدیک کے اکثر جانور دہشت زدہ ہو جاتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ انتہائی بلند اور خوف زدہ کر دینے والی آواز 'ٹلاٹولوفَس گالورم‘ نسل کا نر جانور اپنی مادہ کو بلانے کے لیے نکالتا رہا ہو تا کہ اس کے ساتھ جفتی کر سکے۔

ع ح / م م (اے ایف پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں