میکسیکو کی بہادر صحافی اور مصنفہ انابیل ہیرنانڈیس، ایک خاکہ
19 فروری 2019
جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کا آزادی اظہار کا بہت معتبر سالانہ ایوارڈ اس سال میکسیکو کی کرپشن اور ڈرگ مافیا کے خلاف بے باک رپورٹنگ کرنے والی صحافی اور مصنفہ انابیل ہیرنانڈیس کو دیا جائے گا۔
اشتہار
میکسیکو کی ایک بہت دلیر شہری کے طور پر معروف اس خاتون صحافی اور مصنفہ کو ڈی ڈبلیو کے آزادی اظہار کے ایوارڈ برائے 2019ء کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے اور وہ آج تک یہ اعزاز حاصل کرنے والی کُل پانچ شخصیات میں سے پہلی خاتون ہوں گی۔
پیدائشی طور پر میکسیکو سے تعلق رکھنے والی اس خاتون صحافی نے اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز 1993ء میں اس وقت کیا تھا، جب وہ ابھی یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور ساتھ ہی روزنامہ ’ریفارما‘ (اصلاح) میں کام بھی کرتی تھیں۔
اس کے بعد کے برسوں میں انابیل ہیرنانڈیس نے میکسیکو میں تحقیقاتی صحافت کرنے والے حلقوں میں اپنا نام بنایا۔ اس دوران ان کے بہت سے ایسے مضامین شائع ہوئے، جو انہوں نے انتہائی پرخطر حالات میں پیشہ ورانہ چھان بین کرتے ہوئے میکسیکو کے حکومتی حلقوں میں پائی جانے والی بدعنوانی، جنسی استحصال کے واقعات اور منشیات کا کاروبار کرنے والے منظم گروہوں کے خلاف لکھے تھے۔
انابیل ہیرنانڈیس اب تک ان موضوعات پر دو کتابیں بھی لکھ چکی ہیں اور گزشتہ کچھ عرصے سے یورپ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ میکسیکو سے فرار سے پہلے انہیں اور ان کے بچوں کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
2012ء میں انہیں ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوز پیپرز اینڈ نیوز پبلشرز کی طرف سے گولڈن پین آف فریڈم ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
تب یہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ’’میکسیکو کی تاریخ کے آج کل کے بہت ڈرامائی دور میں خاموش رہنا مردوں، عورتوں، بچوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے کارکنوں، حکومتی ڈھانچے کے ایماندار ارکان اور صحافیوں کے قتل کے واقعات کا باعث بن رہا ہے۔‘‘ انابیل ہیرنانڈیس ان شدید خطرات سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں، جو آج کے میکسیکو میں منظم جرائم اور کرپشن کا سامنا کرنے والے اور ان برائیوں کے خلاف جنگ کرنے والوں کو درپیش ہیں۔
ان کے والد نے اپنی بیٹی کی حفاظت کی خاطر اسے صحافی نہ بننے کا مشورہ دیا تھا۔ پھر جب ان کی بیٹی صحافی بن گئی، تو 2000ء میں انابیل ہیرنانڈیس کے والد کو بھی میکسیکو سٹی میں قتل کر دیا گیا تھا۔
انابیل نے 2010ء میں پانچ سالہ تحقیق کے بعد اپنی جو کتاب شائع کی تھی، اس کا عنوان تھا، ’’نارکو لینڈ: میکسیکو کے ڈرگ لارڈز اور ان کے گاڈ فادرز۔‘‘ اس کتاب میں ان جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی وضاحت کی گئی ہے، جو میکسیکو میں برسوں سے سرگرم ہیں اور اس ملک میں روزمرہ زندگی میں اپنے جرائم کی صورت میں جگہ جگہ اور با بار دیکھنے میں آتے ہیں۔
انابیل ہیرنانڈیس کی دوسری کتاب 2016ء میں شائع ہوئی تھی، جو ان 43 طلبہ کے بارے میں ہے، جو ایگُوآلا نامی شہر سے اچانک غائب ہو گئے تھے۔ ان درجنوں طلبہ کے لاپتہ ہو جانے کا تعلق بھی ڈرگ مافیا اور جرائم کی دنیا ہی سے تھا۔
میکسیکو کی اس بہت بہادر خاتون صحافی اور مصنفہ کو ڈی ڈبلیو کا آزادی اظہار کا ایوارڈ برائے 2019ء اس سال 27 مئی کو جرمن شہر بون میں ہونے والی ایک تقریب میں ڈی ڈبلیو کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سالانہ گلوبل میڈیا فورم کے دوران دیا جائے گا۔
م م / ع ب / ڈی ڈبلیو
بیدخل کیے جانے والے میکسیکن کی واپسی لیکن نئی شروعات کیسے
امریکی صدر کے حکم پر غیرقانونی میکسیکن مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی واپس بھیجے جانے والے مہاجرین نصف سے زائد زندگی امریکا میں بسر کر چکے ہیں۔ ہر ہفتے ایسے مہاجرین کے تین ہوائی جہاز میکسیکو سٹی پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Blackwell
ایک تلخ واپسی
امریکا میں مقیم غیرقانونی مہاجرین کو میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر ہوائی جہاز پر سوار کرایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے اترنے سے بیس منٹ قبل یہ ہتھکڑیاں کھول دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
غیرقانونی اجنبی
جورج نینو کو اُس وقت پتہ چلا کہ وہ امریکا میں ایک غیرقانونی مہاجر ہے، جب اُس کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی۔ اُسے حکام نے سوشل سکیورٹی نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ جورج کے والدین اُسے کم عمری میں امریکا لائے تھے۔ بچپن سے امریکا میں زندگی بسر کرنے والا جورج پانچ برس قبل بیدخل کر کے میکسیکو پہنچا دیا گیا۔ وہ چونتیس برس امریکا میں رہا۔ اُس کے چار بچے جو سابقہ بیوی کے ساتھ امریکی شہر فریزنو میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک غیر ملک
ماریا ہیریرا ستائیس برس کی ہے، اُسے امریکی حکام نے رواں برس دس اپریل کو ڈی پورٹ کیا۔ وہ امریکا میں اپنے قیام میں توسیع کے لیے ویزے کا انتظار کر رہی تھی کہ گرفتار کر لی گئی۔ وہ تین برس کی عمر میں میکسیکو سے امریکا پہنچی تھی۔ اب امریکا کی طرح میکسیکو بھی اُس کے لیے اجنبی دیس ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی شروعات
ماریا کی جورج سے ملاقات ایک غیرسرکاری تنظیم نیو کومینزوس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ یہ تنظیم غیر ملکیوں کی معاونت کرتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اس سے بھی بےخبر تھے کہ ایک دن انہیں میکسیکو سٹی میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا ہو گی۔ امریکا میں ماریا کو گرفتاری کے بعد ڈیپرشن کا بھی سامنا رہا۔ اب وہ نئی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
گرفتاری اور ملک بدری
ڈیگو میگوئل کی عمر سینتیس برس ہے، اُس کو سابقہ گرل فرینڈ کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں سن 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میگوئل کو امریکی حکام نے سن 2016 میں ملک بدر کر دیا۔
تصویر: DW/S. Derks
ٹرمپ اور اُس کی دیوار
پانچ ملک بدر کیے گئے میکسیکن شہریوں کو حکومت نے مالی معاونت کی اور اب وہ چھپائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی تیار کردہ ٹی شرٹس اور بیگز پر ’ٹرمپ اور اُن کی دیوار‘ لکھا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
مددگار ہاتھ
ڈیگو کے پاس کوئی بہت بڑی تنخواہ والی نوکری نہیں لیکن اپنے محدود وسائل کے ساتھ وہ میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر ملک بدر کیے گئے ہم وطنوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ایسے افراد کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ وہ بھی امریکا سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ اُسے میکسیکو میں اپنا جدا ہو جانے والا بیٹا بہت یاد آتا ہے، جو اُس کی سابقہ بیوی کے ساتھ امریکا ہی میں مقیم ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی ابتدا ہو گئی ہے
ڈینئل سونڈوان کو رواں برس فروری میں امریکا سے بیدخل کیا گیا۔ وہ بہت مطمئن ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا میں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت کم سوچتا تھا کیونکہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اُسے شناختی دستاویزات کی ضرورت تھی، جو اُس کے پاس نہیں تھیں لیکن اس بیدخلی کے بعد میکسیکو میں وہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
اطمینان سے آبادکاری
ڈینئل سونڈوان ایک پرنٹ شاپ کے اوپر رہ رہا ہے۔ ایک پادری نے اُس کی ابتدائی رہائش کا بندوبست کیا تھا۔ وہ میکسیکو سٹی میں ایک پچھتر برس کی خاتون کے گھر پر دو ہفتے مقیم رہا۔ اب بیدخل کیے جانے والے افراد کی مقامی تنظیم ڈی پورٹاڈوس کے تعاون سے وہ ایک نئی رہائش گاہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
بیدخلی کا روشن پہلو
بہت سارے بیدخل کیے جانے والے اپنی ساری جمع پونجی امریکا میں ہی چھوڑ چکے ہیں۔ کئی ایسے افراد کہتے ہیں کہ جو چھن چکا ہے، وہ سب کچھ نہیں تھا۔ یہ لوگ اپنے ملک میں قانونی شہری ہیں اور وہ کسی خوف کے بغیر جی رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔