یہ طے ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں عام انسانوں کو مختلف کیمیائی مادوں کا سامنا رہتا ہے اور یہ بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ کیمیائی مادے خواتین کے میک اپ اور ٹیٹو بنوانے کی روشنائی میں خاص طور پر نمایاں ہیں۔
اشتہار
میک اپ، ٹیٹو بنوانے اور گھریلو صفائی میں پائے جانے والے کیمیکلز کے حوالے سے تین اہم ریسرچز کی رپورٹ عام کر دی گئی ہیں۔
میک اپ کی اشیاء میں کیمیکلز کی موجودگی
ایک تازہ ریسرچ کے مطابق خواتین کے میک اپ اور ہیلتھ کیئر کی اشیاء میں ایسے کیمیکلز باقاعدگی سے استعمال کیے جاتے ہیں جو مضر اثرات کے حامل ہیں اور یہ عورتوں میں تولیدی ہارمونز میں تبدیلی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ میک اپ کے بارے میں نئی ریسرچ امریکی ریاست ورجینیا کی جورج میسن یونیورسٹی نے مکمل کی ہے۔ اس رپورٹ کو مرتب کرنے کے لیے ڈیڑھ سو کے قریب مختلف عمر کی خواتین کے پیشاب کے نمونوں کے کلینیکل ٹیسٹس مکمل کیے گئے ہیں۔
ان کلینکل ٹیسٹس سے معلوم ہوا کہ خواتین کے زیر استعمال میک اپ کے اشیاء میں مضر کیمیائی مادے بینزوفینوز اور بِسفینول کے علاوہ محفوظ رکھنے والے مواد یا پرزرویٹر کے اجزا موجود تھے۔ جورج میسن یونیورسٹی کے محققین کے مطابق ان کیمیائی مادوں سے کسی بھی عورت کے اندر حمل قائم کرنے کے ہارمونز میں کمی و بیشی جیسی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔
ٹیٹو بنوانے کی روشنائی کے خطرات
ٹیٹو کندہ کرانے کا بھی رجحان مقبول ہو چکا ہے۔ جلدی امراض کی یورپی اکیڈیمی کے مطابق ٹیٹو بنوانے کے لیے استعمال ہونے والی روشنائی انسانی صحت کے لیے خطرات کی حامل ہے۔ اکیڈیمی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹیٹو کی روشنائی میں ایسے مواد ہوتے ہیں جو بیکٹیریا کی افزائش میں مددگار ہوتے ہیں اور یہ جلد کی الرجی اور دوسرے نقصان دہ اثرات کا باعث ہو سکتے ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ٹیٹو کی روشنائی کی تیاری میں رنگ و روغن کے علاوہ بھاری دھاتوں کے اجزاء شامل ہوتے ہیں، جو انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہیں۔
اسی طرح کینیڈا میں کی جانے والی ایک ریسرچ کے مطابق گھروں میں روزمرہ کی صفائی و ستھرائی کے لیے استعمال کی جانے والی اشیا میں کیمیکل بچوں میں موٹاپے کا سبب بننے والے بیکٹیریا کی افزائش کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بیکٹیریا معدے پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس باعث بچوں میں عمر کے مطابق وزن قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور موٹاپے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
عام مصنوعات میں چھپے خطرات
یورپی کمیشن نے صارفین کے تحفظ سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ کھلونے ہوں، ملبوسات یا پھر میک اَپ کا سامان، بازار میں ناقص اور خطرناک مصنوعات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں زیادہ خطرناک مصنوعات کا سراغ
انتباہی نظام ریپیکس (Rapex) یعنی ریپڈ الرٹ سسٹم فار ڈینجرس نان فوڈ کنزیومر پراڈکٹس کی مدد سے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک آپس میں یورپی منڈی میں خطرناک مصنوعات سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ 2014ء میں کنٹرولرز نے یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ملکوں کے ساتھ ساتھ ناروے، آئس لینڈ اور لیخٹن اشٹائن میں 2435 مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگائی، یہ تعداد اُس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 71 زیادہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیا ریکارڈ
بہت سی مصنوعات میں ایسے خطرات چھپے ہوتے ہیں، جن کی صارفین کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یورپی کمیشن ہر سال اپنی ایک رپورٹ جاری کرتا ہے تاکہ یورپی صارفین کو صحت کے لیے مضر مصنوعات سے خبردار کیا جا سکے۔ یہاں ہم آپ کو محض چند ایک چیدہ چیدہ مثالیں دے رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/E. Dunand
بچوں کے لیے خاص طور پر خطرات
گڑیائیں، جو آگ پکڑ سکتی ہیں، ٹیڈی بیئر، جن میں استعمال کیے گئے مادے کینسر کا باعث بن سکتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر مشتمل کھلونے، جو بچوں کے لیے خاص طور پر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ کئی کھلونے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے بچوں کا دم گھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے اور کئی کے ٹکڑے ایسے تیز دھار ہوتے ہیں کہ بچے زخمی ہو سکتے ہیں۔ 2014ء میں بازار سے ہٹا لی گئی مصنوعات میں سب سے زیادہ یعنی اٹھائیس فیصد کھلونے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جسم کے لیے نقصان دہ ملبوسات
غیر محفوظ مصنوعات کے اعتبار سے 23 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر مختلف طرح کے ملبوسات اور جوتے وغیرہ رہے۔ بہت سے ملبوسات میں ایسے ضرر رساں کیمیائی مادے استعمال کیے گئے ہوتے ہیں کہ جن سے انسانی جلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک مادے جوتوں اور چمڑے سے بنی اشیاء میں پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انتہائی خطرناک
2014ء میں جن مصنوعات کو غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے بازار سے ہٹانے کا حکم دیا گیا، اُن کی نو فیصد تعداد گھریلو استعمال کی عام چیزوں پر مشتمل تھی۔ گرم ہونے والی مصنوعات میں اگر ناقص مادے استعمال کیے گئے ہوں تو اُنہیں آگ بھی لگ سکتی ہے۔ برقی آلات میں ناقص تاروں کے استعمال سے بجلی کا جھٹکا لگ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ضرر رساں درآمدات
گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی سب سے زیادہ خطرناک مصنوعات چین سے درآمد کی گئی تھیں۔ غیر محفوظ مصنوعات کی تقریباً دو تہائی تعداد کا تعلق چین سے بتایا گیا ہے تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین یورپ کو مصنوعات برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں بھی شامل ہے۔ غیر محفوظ مصنوعات کی چَودہ فیصد تعداد یورپ میں تیار ہوئی تھی، زیادہ تر جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور فرانس میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ کے لیے جلد خبردار کرنے والا نظام
یورپ بھر میں غیر محفوظ مصنوعات سے خبردار کرنے والا نظام ریپیکس 2003ء میں متعارف کروایا گیا تھا اور تب سے اب تک اُنیس ہزار تریانوے مصنوعات کا پتہ چلا کر اُن پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ صارفین کے تحفظ سے متعلق یورپی کمشنر ویرا یُورووا کہتی ہیں کہ یہ نظام صارفین کے تحفظ کے حوالے سے بہت مؤثر ثابت ہوا ہے۔