میک کرسٹل کو رہنا چاہئے: افغان صدر کرزئی
23 جون 2010اِس انٹرویو کی وجہ سے، جس میں میک کرسٹل نے اوباما انتظامیہ کے سرکردہ عہدیداروں کے حوالے سے حقارت آمیز تاثرات کا اظہار کیا تھا، اِس امریکی کمانڈر کو وائٹ ہاؤس میں طلب کیا جا چکا ہے اور قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ اُنہیں اپنے موجودہ عہدے سے ہاتھ دھونا بھی پڑ سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ساتھ افغان صدر حامد کرزئی کے اپنے تعلقات بھی زیادہ اچھے نہیں جا رہے۔ کرزئی کے ایک ترجمان کے مطابق منگل کو اوباما کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں، جو پہلے سے طے تھی، کرزئی نے اِس امریکی جنرل پر ’اعتماد‘ کا اظہار کیا۔ کرزئی کے ترجمان وحید عمر نے صحافیوں کو بتایا:’’صدر کا خیال ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں امن و استحکام لانے کے عمل کے سلسلے میں جاری دو طرفہ پارٹنر شپ کے دوران ایک ایسے نازُک موڑ پر کھڑے ہیں کہ جہاں اِس عمل میں کسی بھی قسم کا وقفہ سود مند ثابت نہیں ہو گا۔‘‘
عمر کا کہنا تھا:’’جنرل سٹینلے میک کرسٹل اِس عمل کا ایک بہت ہی اہم حصہ ہیں اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں حکومت اور دیگر فریقوں کے ساتھ مل کر اُس مقصد کے حصول کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے، جو ہم نے مل کر طے کیا ہے۔‘‘
کرزئی کے ترجمان کے مطابق کابل حکومت کے خیال میں جنرل نے غلطی ضرور کی ہے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ افغانستان میں، جہاں میک کرسٹل ایک لاکھ بیالیس ہزار فوجیوں کی کمان کر رہے ہیں، امن و استحکام کی فوری ضرورت سے صرفِ نظر کیا جائے۔ افغان صدر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر میک کرسٹل کو ہٹایا گیا تو باغیوں کے خلاف جاری وہ منصوبے خلل کا شکار ہو سکتے ہیں، جو اِس امریکی جنرل کی کمان میں وضع کئے گئے ہیں۔
افغانستان کی وَزارتِ دفاع کے ترجمان ظاہر عظیمی نے بھی میک کرسٹل کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ جب سے اِس امریکی جنرل نے نیٹو کے بین الاقوامی دستے ISAF کی قیادت سنبھالی ہے، حالات میں بہت زیادہ بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اِس کی مثال دیتے ہوئے ظاہر عظیمی نے کہا کہ اب افغان شہریوں کی ہلاکتیں کم ہو گئی ہیں۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق