میگھن اور ہیری کا 'تباہ کن‘ انٹرویو، شاہی خاندان کے مشورے
9 مارچ 2021
برطانوی شاہی خاندان کے ارکان نے ابھی تک اس انٹرویو پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ تاہم آج منگل کو خاندان کے سینئر ارکان نے انٹرویو سے پیدا ہونے والی صورتحال پر ہنگامی مشاورت کی۔
امریکی چینل سی بی ایس کی مشہور زمانہ میزبان اوپرا وِنفری کو دیے گئے اس غیرمعمولی انٹرویو میں برطانوی شاہی جوڑے نے پہلی بار تفصیل سے ان عوامل کا ذکر کیا جن کے باعث وہ سب کچھ چھوڑ کر امریکا آ بسنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی شاہی خاندان کے اندر ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔
اس حوالے سے انہوں نے نسلی تعصب، اپنی ذہنی صحت اور میڈیا کے کردار پر کھل کر بات کی۔
پرنس ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن کا یہ انٹرویو پیر کی شب برطانوی چینل آئی ٹی وی پر نشر ہوا، جسے لگ بھگ سوا کروڑ لوگوں نے دیکھا۔
اس انٹرویو پر عالمی میڈیا میں بھی زبردست تبصرے جاری ہیں اور بظاہر اس سے برطانوی شاہی خاندان کی ساکھ کو گہرا نقصان پہنچا ہے۔
بورس جانس کا تبصرے سے انکار
پیر کو وزیراعظم بورس جانسن سے جب شاہی جوڑے کے الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس پر کوئی ردعمل دینے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ''ہمیشہ سے ملکہ برطانیہ اور ان کے اخوت سے متعلق کردار سے متعلق بے حد احترام رہا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی شاہی خاندان کے اندرونی معاملات پر بات ہوتی ہے تو وزرائے اعظم کے لیے سب سے بہتر یہی ہوتا ہے کہ وہ اس پر کچھ نہ بولیں۔
تاہم ایک بیان میں برطانیہ کی اپوزیشن لیبر پارٹی نے کہا کہ نسلی تعصب اور ذہنی اذیت سے متعلق شہزادی میگھن کے الزامات کو ''انتہائی سنجیدگی‘‘ سے لینے کی ضرورت ہے۔
ادھر واشنگٹن میں امریکی صدر جو بائیڈن کی ترجمان نے کہا کہ صدر کے نزدیک ذہنی صحت ایک اہم معاملہ اور وہ ہر اس شخص کی حوصلہ افزائی کریں گے جو اس پر کھُل کر بولنے کی ہمت رکھتا ہو۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی میگھن کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ وقت بدل چکا ہے، یہ سن دو ہزار اکیس ہے اور ''یہ نوجوان خاتون سب کچھ سر جھکا کر سہنے کے لیے تیار نہیں تھی۔‘‘
شاہی خاندان میں نسلی تعصب؟
دور حاضر میں میگھن برطانوی شاہی خاندان میں شامل ہونے والی وہ پہلی شخصیت ہیں جن کا رنگ و نسل خالصتاﹰ سفید فام نہیں۔ وہ امریکی شہری ہیں اور سن دوہزار اٹھارہ میں ان کی پرنس ہیری سے پسند کی شادی ہوئی تھی۔
اوپرا ونفری کو انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ شاہی خاندان کی بہو ہونے کے دوران انہیں اس وقت نہایت دکھ پہنچا جب ان کے بیٹے آرچی کی پیدائش سے پہلے شاہی خاندان کے ایک رکن نے پرنس ہیری سے جاننا چاہا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ ان کے بچے کی رنگت ''کتنی سانولی‘‘ ہوگی۔
میگھن کے اس انکشاف سے شاہی خاندان کے اندر نسلی تعصب کا سنگین الزام سامنے آیا۔ اوپرا ونفری کے مطابق پرنس ہیری نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ بات کس نے کہی تھی، تاہم بعد میں انہوں نے واضح کیا کہ اس بات کا ان کی دادی ملکہ برطانیہ یا دادا پرنس فلپ سے کوئی تعلق نہیں۔
میگھن نے مزید بتایا جس وقت وہ حاملہ تھیں ان پر واضح ہو گیا تھا کہ شاہی خاندان کی طرف سے ان کے بچے کو شہزادے کا درجہ نہیں ملے گا اور نہ ہی کوئی شاہی لقب یا سکیورٹی پروٹوکول مہیا کیا جائے گا۔
جب ذہنی اذیت بڑھ گئی
انٹرویو میں میگھن نے بتایا کہ شاہی خاندان کے اندر ان کی زندگی اتنی اجیرن ہوگئی تھی کہ وہ مزید زندہ نہیں رہنا چاہتی تھیں اور خودکشی پر غور کر رہی تھیں۔ جب اس حوالے سے انہوں نے مدد کے لیے رجوع کیا تو ان کے مطابق شاہی خاندان سے انہیں کوئی رہنمائی نہ ملی۔
پرنس ہیری کے مطابق اس دوران جب برطانوی میڈیا میں ان کی اہلیہ کے رنگ و نسل کے حوالے سے مسلسل حملے کیے جارہے تھے، برطانوی شاہی خاندان میں سے کسی نے بھی ان کی دل جوئی نہیں کی اور کوئی ان کے حق میں نہیں بولا۔
انہوں نے کہا کہ ان تین برسوں میں خاندان میں سے کسی نے ایک لفظ ہمدردی کا نہیں بولا، جس کا انہیں ''دکھ‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرحلے پر ان کے والد پرنس چارلس نے بھی ان سے فون پر بات کرنا چھوڑ دی تھی۔
پرنس ہیری اور میگھن پچھلے سال مارچ میں اپنی شاہی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر امریکا منتقل ہوگئے، جہاں وہ اپنی نئی زندگی اور کاروبار بنانے میں مصروف ہیں۔
ش ج / ا ب ا (اے ایف پی، اے پی)