میں آئین اور حلف توڑنے والے فوجی کی عزت نہیں کرتا، نواز شریف
1 اکتوبر 2020
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی جماعت کی ورکنگ کمیٹی سے خطاب میں واضح انداز سے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے کچھ عنصر انتخابی دھاندلی میں ملوث تھے، جن کو حساب دینا ہو گا۔
اشتہار
سابقہ وزیراعظم پاکستان نے اپنی جماعت کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں اپنی حکومت کے دوران ملکی کارکردگی اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کا موازنہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے عوام پر مہنگائی کا شدید بوجھ پڑا ہے۔ انہوں نے اپنی حکومت کی معاشی کارکردگی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تب پاکستان جنوبی ایشیا میں تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں سے ایک تھا، تاہم حالیہ دو برسوں میں ملک کو تمام تر شعبوں میں بحرانی صورت حال کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تمام بدحالی کے ذمہ دار وزیراعظم عمران خان تو ہیں، تاہم اصل ذمہ دار انتخابات میں دھاندلی کرنے میں ملوث عسکری عناصر ہیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کے دورِ حکومت میں بلوچستان کی حکومت گرائی گئی، تاکہ سینیٹ کے انتخابات چرائے جا سکیں۔ نواز شریف نے کہا کہ اس میں اس وقت کے کور کمانڈر سدرن کمان لفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ اب وزیراعظم کے خصوص مشیر برائے اطلاعات و نشریات کے علاوہ سی پیک اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ تاہم کچھ عرصے قبل ان کے اور ان کے خاندان کے اربوں ڈالر کے اثاثوں سے متعلق ایک خبر سامنے آئی تھی اور تب سے اب تک وہ پاکستان میں موضوع بحث ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ ملکی احتسابی ادارے نیب نے کیوں عاصم باجوہ کے خلاف تفتیش نہیں کی؟
نواز شریف نے اپنے خطاب میں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لفٹینٹ جنرل فیض حمید کا بھی نام لیا اور کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے ایک جج پر دباؤ ڈالنے میں ملوث تھے۔ نواز شریف نے الزام عائد کیا کہ جنرل فیض حمید نے ایک جج شوکت صدیقی سے کہا تھا کہ انتخابات سے قبل نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو جیل سے باہر نہ آنے دیں، کیوں کہ ایسی صورت میں ''ان کی دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔‘‘
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Bradshaw
6 تصاویر1 | 6
نواز شریف نے کہا کہ وہ ملکی دستور اور حلف کی پاسداری کرنے والے فوجیوں کی عزت کرتے ہیں، تاہم حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں کی عزت نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسے کسی فوجی کی عزت نہیں کرتے جو وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگے۔
اس اجلاس میں نواز شریف نے اپنی جماعت کے ورکز سے عہد لیا کہ وہ ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کریں گے اور اس سلسلے میں کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔