میں خواب کے عالم میں ہوں، شامی مہاجر خاتون اٹلی میں
17 اپریل 2016
پاپائے روم فرانسس کے ہمراہ ویٹکن پہنچنے والی شامی مہاجرخاتون نور کا کہنا ہے کہ وہ خواب کی کیفیت میں ہیں کیونکہ انہیں یقین نہیں آ رہا کہ انہیں اتنی عزت دی گئی ہے۔
اشتہار
نور ان بارہ شامی مہاجرین میں شامل ہیں، جنہیں ہفتے کے روز پوپ فرانسس اپنے یونانی جزیرے لیسبوس کے دورے کے اختتام پراپنے ساتھ ویٹی کن سٹی لے گئے تھے۔
اطالوی دارالحکومت روم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نور نے کہا کہ وہ ہیجان زدہ ہیں، ’’میں پوپ فرانسس کی شکر گزار ہوں۔ پوپ فرانسس نے شامی مہاجرین کے لیے جو کچھ کیا ہے، میں اس کی شکر گزار اور معترف ہوں۔‘‘ نور نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ پوپ فرانسس کا یہ عمل مہاجرین کے بحران کے ضمن میں سیاسی رائے پر مثبت انداز میں اثر انداز ہو گا۔
نور، ان کے شوہر حسین اور ان کا دو سالہ بچہ اُن تین گھرانوں میں شامل ہیں، جنہیں پوپ فرانسس ہفتے کے دن لیسبوس سے اپنے ساتھ روم لے گئے تھے۔ ان شامی مہاجرین کو ویٹی کن میں منتقل کیا جائے گا۔ تاہم ابتدائی طور پر انہیں روم میں واقع ایک ہوسٹل میں عارضی پناہ گاہ فراہم کی گئی ہے۔
ایک اطالوی کیتھولک آرگنائزئشن کمیونٹی کے زیر انتظام اس ہوسٹل میں جب یہ شامی مہاجرین پہنچے تو وہاں کے اسٹاف نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ ان کو گلدستے پیش کیے گئے جبکہ وہاں بینرز بھی لگے ہوئے تھے، جن پر درج تھا ۔ ’خوش آمدید‘۔ اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
نور نے اس موقع پر انگریزی اور فرانسیسی زبان میں صحافیوں سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے فرانس میں مائیکروبائیولوجی کی تعلیم و تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے شوہر حسین ایک ایگریکلچرل انجینیئر ہیں۔
نور نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ برس دسمبر میں دمشق کو اس وقت خیرباد کہہ دیا تھا، جب گولہ باری کی وجہ سے ان کا گھر تباہ ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بس کے ذریعے داعش کے زیر قبضہ شامی علاقوں سے ہوتے ہوئے ترکی پہنچے تھے۔
نور کے مطابق ترکی میں تین مرتبہ انہیں پولیس نے پکڑا تھا لیکن آخر کار وہ اٹھارہ مارچ کو لیسبوس پہنچنے میں کامیاب ہو گئ تھیں۔ اس کے دو دن بعد ہی ترکی اور یورپی یونین کے مابین وہ ڈیل طے پا گئی تھی، جس کے تحت ترکی سے لیسبوس پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا۔
نور نے ایسی خبروں کو مسترد کر دیا کہ پوپ فرانسس کے ساتھ ویٹی کن جانے والے شامی مہاجرین کا انتخاب قرعہ اندازی کی مدد سے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جمعے کی رات ایک انٹرویو کے بعد ان کا انتخاب کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ سب بہت تیزی سے ہوا۔‘‘
پوپ فرانسس جن بارہ شامی مہاجرین کو اپنے ساتھ ویٹی کن لے کر گئے ہیں، وہ سب مسلمان ہیں۔ نور نے کہا کہ انہوں نے پوپ فرانسس سے درخواست کی تھی کہ وہ شامی مہاجرین کے لیے دعا گو رہیں۔
پوپ فرانسس کا دورہ لیسبوس
01:26
نور نے صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مستقبل کی زندگی کے بارے میں ان کا نظریہ بہت سادہ سا ہے، ’’ہم جنگ سے فرار ہو کر یہاں پہنچے ہیں۔ ہم ویسے ہی معمول کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، جیسی دیگر انسان کر رہے ہیں۔ ہم صرف یہی چاہتے ہیں۔‘‘
ویٹی کن کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ پوپ کے دورہ لیسبوس کے اختتام پر شامی مہاجرین کو ویٹی کن لے جانے کا فیصلہ دراصل مہاجرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کا ایک علامتی انداز ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ پوپ فرانسس کا یہ عمل مستقبل میں مغربی ممالک میں مہاجرین کے ساتھ بہتر سلوک کی ایک مثال بن سکے گا۔