کورونا وائرس کی وباسے بروقت اور بہتر طور پر نہیں نمٹنے کے لیے نکتہ چینی کے درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اقدامات کا دفاع کیا ہے اور کہا کہ بعض آئینی حدود کے باوجود انہیں کلی اختیارات حاصل ہیں۔
صدر ٹرمپ نے موجودہ صورت حال کے لیے آلات کی کمی اورریاستوں کے گورنروں کو ذمہ ٹھہرایا اور اپنے طریقہ کار کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ”ہم نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک تھا۔“
امریکا میں وائرس کی وبا کا شکار ہونے والوں کی مصدقہ تعداد پانچ لاکھ 77 ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے، ساڑھے 23 ہزار سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہی ڈیڑھ ہزارسے زائد افراد کی موت ہوئی ہے اور کورونا وبا کی ہلاکت خیزی کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں میڈیابریفنگ کے دوران کہا کہ ان کی انتظامیہ ملکی معیشت کو دوبارہ کھولنے کا منصوبہ بنارہی ہے کیوں کہ کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد میں اضافہ رک گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ریاستوں کےگورنروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے لیکن معیشت کو دوبارہ کھولنے کے متعلق حتمی فیصلہ بہر حال امریکی صدر ہی کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے زور دے کر کہا ”وہ لوگ صدر امریکا کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ فیصلہ کرنا صدر کے اختیار میں ہے، اسے اختیارات کلی حاصل ہیں اور گورنر بھی یہ بات جانتے ہیں۔“
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے اپنے طریقہ کار کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ملک میں جلدی لاک ڈاؤن کر دیتے تب بھی ان پر تنقید کی جاتی۔ انہوں نے صورتحال کے لیے آلات کی کمی کے لیے پچاس ریاستوں کے گورنروں کو ذمہ دار ٹھہرا یا۔
امریکا میں کورونا وائرس کی وبا کی ہلاکت خیزی کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔تصویر: Reuters/L. Jackson
ٹرمپ نے بتایا کہ ان کی انتظامیہ جلد ہی نئے اور اہم رہنما اصول مرتب کر لے گی جو گورنروں کو دیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ اپنی اپنی ریاست میں حفاظت کے ساتھ لاک ڈاؤن ختم کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر نے کہا، ”وائٹ ہاؤس کی جانب سے نئے رہنما اصول چند دنوں میں جاری کر دیے جائیں گے۔ یہ نیا منصوبہ امریکا کے لوگوں کو وہ اعتماد دے گا جو انہیں پھر سے معمولات ِ زندگی شروع کرنے کے لیے حوصلہ فراہم کرے گا۔“
امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ ملک میں انفیکشن کے پھیلنے کی رفتار سست ہورہی ہے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران امریکا میں نئے کیسیز کی تعداد میں کمی آئی ہے اور لوگ ہسپتالوں میں کم آرہے ہیں، جوا س بات کا ثبوت ہے کہ ”ہماری حکمت عملی کارگر ثابت ہورہی ہے۔“
یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا میں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاوسی نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ اگر امریکا نے کورونا وائرس پر قابوپانے کے لیے بروقت اور تیزی سے اقدامات کیے ہوتے توبہت سے جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ بہر حال ڈاکٹر فاوسی کا اب کہنا ہے کہ ٹرمپ نے ملک کے چوٹی کے طبی ماہرین کے مشوروں پر عمل کرنا شرو ع کردیا ہے جس سے اس وبا پر قابو پانے میں خاطر خواہ مدد مل رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے وینٹی لیٹرز خاطر خواہ تعداد میں موجود ہیں۔ ”گو کہ ابھی اور زیادہ وینٹی لیٹرز کی مانگ ہورہی ہے تاہم ضرورت کے مطابق وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں، ہم نے بڑی تعداد میں انہیں وینٹی لیٹرز فراہم کیے ہیں۔“
ٹرمپ نے کورونا کے بحران سے نمٹنے میں اپنی کارکردگی کا دفاع کرنے کے لیے میڈیا بریفنگ کے دوران صحافیوں کے سوالات پوچھنے سے قبل ایک ویڈیو بھی دکھایا جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کی انتظامیہ نے اس وبا پر قابو پانے کے لیے کتنے موثر طریقے سے اقدامات کیے ہیں۔
ج ا / ص ز (ایجنسیاں)
ایشیا سے امریکا تک، ماسک کی دنیا
آغاز پر طبی ماہرین نے ماسک پہننے کو کورونا وائرس کے خلاف بے اثر قرار دیا تھا لیکن اب زیادہ سے زیادہ ممالک اسے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ضروری سمجھ رہے ہیں۔ ایشیا سے شروع ہونے والے ماسک پہننے کے رجحان پر ایک نظر!
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
گلوز، فون، ماسک
جرمنی بھر میں ماسک کب لازمی قرار دیے جائیں گے؟ انہیں ایشیا میں کورونا وائرس کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ جرمنی کے روبرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ نے بھی ماسک پہننے کی تجویز دی ہے۔ یینا جرمنی کا وہ پہلا شہر ہے، جہاں عوامی مقامات اور مارکیٹوں میں ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
تصویر: Imago Images/Sven Simon/F. Hoermann
اپنی مدد آپ کے تحت
عالمی سطح پر ماسکس کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے میں کئی لوگ ماسک خود بنانے کا طریقہ سیکھا رہے ہیں۔ یوٹیوب اور ٹویٹر پر ایسی کئی ویڈیوز مل سکتی ہیں، جن میں ماسک خود بنانا سکھایا گیا ہے۔ جرمن ڈیزائنر کرسٹین بوخوو بھی آن لائن ماسک بنانا سیکھا رہی ہیں۔ وہ اپنے اسٹوڈیو میں ریڈ کراس اور فائر فائٹرز کے لیے بھی ماسک تیار کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
مسکراہٹ
جرمن شہر ہنوور کی آرٹسٹ منشا فریڈریش بھی کورونا وائرس کا مقابلہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے کر رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ سے تیار کردہ ماسک مسکراتے ہوئے چہروں اور معصوم جانوروں کی شکلوں سے مزین نظر آتے ہیں۔ اس آرٹسٹ کے مطابق وہ نہیں چاہتیں کہ وائرس لوگوں کی خوش مزاجی پر اثر انداز ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
رنگین امتزاج
جمہوریہ چیک اور سلوواکیہ ایک قدم آگے ہیں۔ دونوں ملکوں نے ہی مارچ کے وسط میں عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔ سلوواکیہ کی خاتون صدر اور وزیراعظم بطور مثال خود ماسک پہن کر عوام کے سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد آسٹریا نے بھی دوران خریداری ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Svitok
چین میں بہار
چین میں کسی وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک پہن کر رکھنا روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے شروع میں ہی وہاں لوگوں نے ماسک پہننا شروع کر دیے تھے۔ وہاں اس وبا کے باوجود یہ جوڑا محبت کے شعلوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور باقی دنیا سے بے خبر بہار کا رقص کر رہا ہے۔
تصویر: AFP
اسرائیل، سب برابر ہیں
اسرائیل میں بھی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ پولیس اور فوج مل کر وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے کرفیو کو نافذ العمل بنا رہے ہیں۔ آرتھوڈکس یہودی بھی ان قوانین سے مبرا نہیں ہیں۔ یروشلم میں ایک پولیس اہلکار الٹرا آرتھوڈکس یہودی کو گھر جانے کی تلقین کر رہا ہے۔
تصویر: picture-lliance/dpa/I. Yefimovich
غزہ میں آرٹ
گنجان آباد غزہ پٹی میں لوگ ماسک کے ذریعے اپنی فنکارانہ صلاحیتیوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ غزہ حکام نے تمام تقریبات منسوخ کرتے ہوئے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ تیس مارچ کو اسرائیل کی سرحد کے قریب طے شدہ سالانہ احتجاجی مظاہرہ بھی منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Wire/A. Hasaballah
ماکروں کے گمشدہ ماسک
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں حفاظتی سوٹ اور ماسک تیار کرنے والی ایک فیکٹری کا دورہ کر رہے ہیں۔ سینکڑوں ڈاکٹروں نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حفاظتی سازوسامان مہیا کرنے میں ناکامی پر حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ حفاظتی سامان نہ ہونے کے باوجود بہت سے ڈاکٹروں نے مریض کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کا علاج کیا۔