’میں معصوم ہوں‘ کاراچچ
1 مارچ 2010راڈووان کاراچچ نےکہا کہ دی ہیگ میں اقوام متحدہ کے استغاثہ نے شواہد کو مسخ کیا اور ان پر نسل کُشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم جیسے الزامات عائد کئے گئے۔
دی ہیگ کی عدالت میں اپنے اوپر عائد الزامات کا دفاع کرتے ہوئے منگل کو کاراچچ نے کہا کہ اُس وقت سربوں نے صرف اپنا دفاع کیا تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ان پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے عائد گیارہ الزامات میں وہ ’معصوم‘ ہیں۔
دی ہیگ میں قائم اقوام متحدہ کی سابق یوگوسلاویہ سے متعلق جنگی جرائم کی عدالت میں بوسنیائی سربوں کے سابق رہنما راڈووان کاراچچ نے کہا کہ وہ اس عدالت میں اپنا نہیں بلکہ اپنی قوم کا دفاع کرنے آئیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ ثابت کریں گےکہ سن 1992ء تا سن 1995ء تک جاری رہنے والی یہ جنگ منصفانہ بنیادوں پر لڑی گئی تھی۔
64 سالہ کاراچچ، اس مقدمے کا بائیکاٹ ختم کرتے ہوئے ، منگل کے روز اپنے وکیل کے ساتھ کمرہ عدالت پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ان کے پا س ٹھوس ثبوت ہیں۔ اس دوران کاراچچ نے اقوام متحدہ کے استغاثہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کی کارروائی کومغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی کسی ڈسپلنری کمیٹی کی کارروائی بنا دیا گیا ہے۔
کارروائی کے دوران انہوں نے کہا: ’’ سربوں نے جو کچھ بھی کیا ، اسے جرم بنا دیا گیا ہے‘‘۔ انہوں نے بوسنیائی مسلمانوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے متحدہ حکومت کے لئے پیش کئے تمام مسودوں اور منصوبوں کو رد کر دیا تھا اور وہ ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے۔
کاراچچ پر نسل کشی کے دو الزامات کے علاوہ سربنتسا کے سات ہزار سے زائد مردوں اور لڑکوں کے قتل اور تشدد کے دیگر نو الزامات عائد ہیں۔ استغاثہ کے مطابق کاراچچ نے سربیا میں مسلمانوں اور کروآٹ نسل کے باشندوں کو دانستہ طور پر قتل کیا کیونکہ وہ سربیا میں اپنی ہی نسل کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
تیرہ برس کی روپوشی کے بعد کاراچچ کو سن دو ہزار آٹھ میں بلغراد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اکتیس جولائی سن دو ہزار نو کو کاراچچ پہلی مرتبہ دی ہیگ میں قائم اقوام متحدہ کی سابق یوگوسلاویہ سے متعلق جنگی جرائم کی عدالت میں پیش ہوئےتھے۔ 26 اکتوبرکی سماعت کا کاراچچ نے بائیکاٹ کیا۔ تین نومبر کو کاراچچ نے کہا کہ انہیں اپنے دفاع تیار کرنے کے لئے دس مہینوں کا وقت درکار ہو گا۔ اس کے بعد سے اب یکم مارچ کو کاراچچ کمرہ عدالت میں آئے۔
اس دوران دی ہیگ میں کمرہ عدالت کے باہر بوسنیا جنگ میں زندہ بچ جانے والے افراد اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے پر امن احتجاجی مظاہر ے بھی کئے۔ ان مظاہروں میں شامل ایک خاتون نے کہا کہ وہ اس لئے یہاں آئی ہیں تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ ان کے مجرم ابھی تک زندہ ہیں اور وہ ابھی تک سچ اور انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عبدالستار