پاکستانی فیمینسٹ ماروی سرمد پدرشاہی نظام اور صنفی امتیاز سے متعلق اپنے مؤقف پر نہ تو کسی ابہام کا شکار ہیں اور نہ ہی شرمسار۔ ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ قدامت پسند آخر ان کی بہادری سے نالاں کیوں ہیں۔
اشتہار
پاکستانی فیمینسٹ یا حقوق نسواں کی علمبردار ماروی سرمد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ ایک ٹی وی پروگرام میں مقبول پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر نے ان کے ساتھ جو بدکلامی کی، وہ دراصل اس قدامت پسند معاشرے میں طاقت کے بگڑے ہوئے توازن کی نشانی ہے۔
اپنی اس دلیل کی وضاحت میں ماروی نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک دوسرے ٹی وی پروگرام میں خلیل الرحمان قمر کا مقابلہ مشہور ٹی وی اینکر عامر لیاقت حسین ہوا، تو خلیل خاموش رہے جبکہ لیاقت حسین نے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے'سماج دشمن‘ تک بھی کہہ ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب 'پاور رلیشن‘ کی وجہ سی ہی ہوتا ہے۔
ماروی کے بقول خلیل الرحمان قمر دراصل خاتون کو کمتر سمجھتے ہیں اور وہ یہ قبول نہیں کر سکتے کہ خاتون جھکنے سے انکار کر دے۔ ماروی کا مزید کہنا تھا کہ وہ ایک طویل عرصے سے اس کا شکار بن رہی ہیں، ''جب میں اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے مرادنگی اور پدرشاہی نظام کو چیلنج کرتی ہوں تو مردوں کو خوف لاحق ہو جاتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ماروی نے واضح کیا کہ 'پاور ریلشن‘ کی وجہ سے صرف خواتین ہی متاثر نہیں ہوتیں بلکہ ایسے مرد بھی اس کی زد میں آتے ہیں، جو کمزور ہوتے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عامر لیاقت حسین کے سامنے تو خلیل الرحمان قمر خاموش رہے لیکن جب ایک جونیئر اینکر پرسن نے انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا تو خلیل نے اس کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔
ماروی سرمد پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور انتہائی دائیں بازو کے مذہبی نظریات کی کھلی ناقد ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ اس معاشرے میں انہیں وہ حیثیت نہیں مل سکی، جو عامر لیاقت حسین جیسی شخصیات کو حاصل ہے۔
خواتین کا عالمی دن: پاکستان میں اس مرتبہ پوسٹرز کیسے تھے؟
اس مرتبہ عورت مارچ کی مشروط اجازت دی گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی مظاہرے کیے۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں منعقد ہونے والے مظاہروں کی تصاویر۔
تصویر: DW/R. Saeed
کراچی ریلی میں بھی ہزاروں افراد کی شرکت
خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے عورت مارچ میں اس مرتبہ کراچی میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے پوسٹرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین کے حقوق سے متعلق نعرے درج تھے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا، جس پر درج تھا: ’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
’میرا جسم میری مرضی‘
اس نعرے کی تشریح اس مرتبہ بھی مختلف انداز میں کی گئی۔ کئی حلقوں نے اسے جسم فروشی کی ترویج قرار دیا، جب کہ حقوق نسواں کے علم برداروں کے نزدیک اس کا مفہوم مختلف ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں‘
مظاہرے میں مرد بھی شریک ہوئے۔ ایک مرد نے ایک پوسٹر پر لکھ رکھا تھا، ’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں، سوچ میں‘ (ہے)۔
تصویر: DW/R. Saeed
’دونوں نے مل کر پکایا‘
ایک پوسٹر پر درج تھا ’چڑا لایا دال کا دانہ، چڑیا لائی چاول کا دانہ، دونوں نے مل کر پکایا، مل کر کھایا‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
سیاست دان بھی شریک
عورت مارچ میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
بزرگ خواتین نے بھی مارچ کیا
کراچی میں منعقد ہونے والے عورت مارچ میں معمر خواتین بھی شامل ہوئیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
’بے شرم کون؟‘
ایک خاتون نے ایک پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’دیکھتے ہو اسے بے شرمی سے تم، پھر کہتے ہو اسے بے شرم تم‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاپتا بلوچ خواتین کے حق میں پوسٹرز
عورت مارچ کے دوران ایسی بلوچ خواتین اور مردوں کے حق میں بھی پوسٹرز دیکھے گئے جو ’جبری طور پر گمشدہ‘ ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاہور: ’بچوں پر جنسی تشدد بند کرو‘
صوبائی دارالحکومت لاہور میں اس برس بھی عورت مارچ میں خواتین نے بھرپور شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور میں مرد بھی شانہ بشانہ
لاہور میں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بڑی تعداد نے بھی عورت مارچ میں شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مارچ زیادہ منظم
اس مرتبہ عورت مارچ کی مخالفت اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسے بہتر انداز میں منظم کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’ہمارے چینل ہماری مرضی‘
لاہور میں عورت مارچ کے دوران ایسے پوسٹر بھی دکھائی دیے جن پر پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر پر پابندی لگانے کے مطالبے درج تھے۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو میں ماروی سرمد سے بدتمیزی کی تھی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’عورت اب آواز بھی ہے‘
پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر سے متعلق دیگر پوسٹرز پر بھی انہی کے متنازعہ جملوں کو لے کر طنز کیا گیا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’اس دور میں جینا لازم ہے‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے اپنے چہرے پر آزادی تحریر کر رکھا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مذہبی جماعتوں کی ’حیا واک‘
اسلام آباد میں عورت مارچ کے مد مقابل کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر مذہبی تنظیموں نے ’حیا واک‘ کا انعقاد کیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
’جسم کی حفاظت پردہ ہے‘
’حیا واک‘ میں جامعہ حفصہ کی طالبات بھی شریک ہوئیں، جنہوں نے عورت مارچ کے شرکاء ہی کی طرح مختلف پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
اسلام آباد کا عورت مارچ
پاکستانی دارالحکومت میں اس مرتبہ بھی عورت مارچ کے شرکاء نے دلچسپ پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
’عزت کے نام پر قتل نہ کرو‘
عورت مارچ میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پوسٹر تھا، جس پر درج تھا: ’مجھے جینے کا حق چاہیے‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘
ایک نوجوان لڑکی نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’میں جنسی زیادتی کے متاثرین کے لیے مارچ کرتی ہوں‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
سکیورٹی کے باوجود پتھراؤ
اسلام آباد انتظامیہ نے دونوں ریلیوں کے شرکاء کو الگ رکھنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ تاہم اس کے باوجود پتھراؤ کے واقعات پیش آئے، جس کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا گیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
جماعت اسلامی کی تکریم نسواں واک
مذہبی سیاسی تنظیم جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر تکریم نسواں واک کا انعقاد کیا۔
تصویر: AFP/A. Qureshi
’قوموں کی عزت ہم سے ہے‘
اسلام آباد میں تکریم نسواں واک میں بھی بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ ایک پوسٹر پر درج تھا ’ہمارا دعویٰ ہے کہ خواتین کو حقوق صرف اسلام دیتا ہے‘۔
تصویر: AFP/A. Qureshi
23 تصاویر1 | 23
اپنے کھلے اظہار خیال کی وجہ سے ماروی سرمد کو پاکستان میں ایک متنازعہ شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔ کئی قدامت پسند حلقوں کی طرف سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ مغربی اقدار کو متعارف کرواتے ہوئے پاکستانی کے روایتی خاندانی نظام کو برباد کرنا چاہتی ہیں۔
ان الزامات کے جواب میں ماروی نے کہا کہ دراصل وہ صرف 'زہریلی مردانگی کو اشتعال دلاتی ہیں‘۔ انہوں نے کہا، ''یوں میں صنفی موضوعات کو سامنے لاتی ہوں اور ایک بحث شروع کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘
ماروی سرمد کے بقول 'میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ دراصل پاکستان کی تمام خواتین کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا، ''جب کسی خاتون کو عزت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو اس کے جسم کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کسی خاتون کی زبردستی شادی کی جاتی ہے تو اس کے جسم اور پسند پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے اور جب کسی کسی خاتون کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کے جسم پر ہی ضربیں لگائی جاتی ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ماروی نے کہا کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کی تحریک زور پکڑ رہی ہے اور خواتین کو متنازعہ ہو جانے کے خوف کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ متنازعہ ہوئے بغیر 'سٹیٹس کو‘ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
اس سوال کے جواب میں کہ ان پر 'لبرل انتہا پسند‘ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے، ماروی کا کہنا تھا، ''دراصل دو الفاظ پر مبنی یہ ترکیب ہی درست ہے کیونکہ لبرازم درس دیتا ہے کہ براشت کا مظاہرہ کیا جائے اور تمام نظریات کے حامل افراد کا احترام کیا جائے۔ اس لیے لبرل کبھی بھی انتہا پسند نہیں ہو سکتا۔ یہ الزام وہ عائد کرتے ہیں، جن کے نزدیک سیاسی و معاشی شعبہ جات میں خواتین کی شمولیت کی خواہش دراصل انتہاپسندانہ مطالبات ہیں۔ یہ الزام وہ عائد کرتے ہیں، جن سمجھتے ہیں کہ برابری کے مطالبات ہی انتہا پسندی ہیں‘‘۔