مے کی میرکل سے ہنگامی ملاقات، بریگزٹ پر صلاح و مشورے
11 دسمبر 2018
بریگزٹ معاہدے پر رائے شماری مؤخر کیے جانے کے بعد منگل کو برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے دی ہیگ، برلن اور برسلز کا ہنگامی دورہ کیا۔ مے کے اس دورے کا مقصد بریگزٹ کے معاملے پر یورپی حکام سے کچھ رعایتیں حاصل کرنا تھا۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج منگل کو برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹے تک ملاقات کی۔ اس دوران دونوں رہنماؤں نے یورپی یونین سے برطانوی انخلاء کے موضوع پر جاری پیچیدہ بریگزٹ بحث پر صلاح و مشورے کیے۔ میرکل نے مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے چانسلر دفتر میں مے کا استقبال کیا۔ تاہم اس دوران ہونے والی بات چیت کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔
یورپی حکام یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کی جانب سے برطانیہ کو اس معاملے میں بہترین شرائط دی گئی ہیں تاکہ اسے کابینہ سے بریگزٹ معاہدے کو منظور کروانے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
برطانوی پارلیمان میں بریگزٹ ڈیل پر ووٹنگ مؤخر کرنے کے بعد مے کے دورہ یورپ کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
برطانوی پارلیمان میں وزیرا عظم ٹریزا مے کے بریگزٹ پلان پر رائے شماری اکیس جنوری سے قبل کر لی جائے گی۔ برطانوی وزیر اعظم کے ایک ترجمان نے منگل کے دن بتایا کہ رائے شماری کے اس عمل سے قبل وہ اپنے یورپی ساتھیوں کی اضافی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
ابھی تک یورپی یونین برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ کے موضوع پر نئے مذاکراتی عمل کو مسترد کر رہی ہے۔ تاہم مے کی خاص طور پر کوشش ہے کہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی مشترکہ سرحد کے حوالے سے مزید رعایت حاصل کر لی جائے۔
برطانوی وزیر اعظم نے جرمنی پہنچنے سے قبل ہالینڈ میں ڈچ وزیر اعظم مارک رٹے سے بھی ملاقات کی تھی۔ وہ یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک سے ملنے کے بعد واپس لندن روانہ ہو گئیں۔ اس موقع پر انہوں نے یورپی کمیشن کے سربراہ ژان کلود ینکر سے بھی بریگزٹ معاہدے پر بات چیت کی۔ ہالینڈ، جرمنی اور برسلز میں اپنی ملاقاتوں کے بعد مے بدھ کو اپنی کابینہ سے ایک خصوصی ملاقات بھی کریں گی۔
تقریباً ڈھائی سال قبل برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کا نتیجہ برلن کے لیے بھی ایک بڑے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ جرمن سیاسی حلقوں میں سے بہت کم ہی کو اس نتیجے کی امید تھی اور تقریباً کوئی بھی جرمن شہری یہ نہیں چاہتا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو۔
بریگزٹ: لندن کے سابق اور موجودہ میئر کے درمیان مباحثہ