ریکارڈ انفیکشنز، بھارتی ریاست مہاراشٹر میں رات کا کرفیو نافذ
28 مارچ 2021
بھارتی ریاست مہاراشٹر میں کورونا وائرس کی نئی انفیکشنز کی ریکارڈ تعداد کے باعث حکام نے آج اتوار سے رات کے کرفیو کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت کا تجاری مرکز اور بہت زیادہ آبادی والا شہر ممبئی اسی ریاست کا دارالحکومت ہے۔
اشتہار
ممبئی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق مغربی بھارت کے اس شہر میں گزشتہ روز کورونا وائرس کی سوا چھ ہزار کے قریب نئی انفیکشنز کی تصدیق ہو گئی، جو کسی ایک دن میں گزشتہ برس مارچ سے لے کر اب تک کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔
ممبئی کے میئر کشور پیڈنیکر نے اس فیصلے کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ''ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہر کی کچی آبادیوں اور پسماندہ بستیوں کے مقابلے میں بلند و بالا عمارات کے مکینوں میں کووڈ انیس کے ٹسیٹوں کے نتائج مثبت آنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس لیے اس وائرس کے مزید اور زیادہ تیز رفتار پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دن کے وقت بھی زیادہ تر صرف لازمی سروسز تک رسائی کی اجازت ہو گی۔‘‘
پیڈنیکر نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ بھارت کے اس میٹروپولیٹن شہر کے تمام ہوٹل، شراب خانے اور شاپنگ مال رات کے وقت کرفیو کے سرکاری فیصلے کا مکمل احترام کریں گے۔
سکھوں کے گردواروں نے لاکھوں افراد کو بھوک سے بچا لیا
بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے مشکل اوقات کے دوران دہلی کی سکھ برادری گردواروں میں قائم باورچی خانوں میں روزانہ کھانا پکا کر لاکھوں ضرورت مند افراد میں مفت لنگر تقسیم کر رہی ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
دہلی کے تاریخی گردوارے
بھارت میں تقریباﹰ 21 ملین سکھ افراد بستے ہیں۔ اس طرح سکھ مذہب بھارت کا چوتھا بڑا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔ ’سیوا‘ یعنی ’خدمت‘ سکھ مذہب کا ایک اہم ستون ہے۔ سکھ عبادت گاہ گردوارہ میں قائم لنگر خانوں میں لاکھوں افراد کے لیے مفت کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
کورونا وائرس سے بچنے کے حفاظتی اقدامات
بھارت میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے رواں برس مارچ کے اواخر تک دہلی کے تمام گردواروں کے دروازے عوام کے لیے بند رہے۔ تاہم گردواروں کا عملہ روزانہ مذہبی سرگرمیاں اور ضرورت مند افراد کی خدمت جاری رکھےہوئے تھا۔ گزشتہ ماہ سے ملک بھر میں مذہبی مقامات دوبارہ سے کھول دیے گئے اور عوام کے لیے جراثیم کش مواد کا استعمال، چہرے پر ماسک اور جسم کا درجہ حرارت چیک کروانے جیسے احتیاطی ضوابط لاگو کر دیے گئے۔
تصویر: DW/S. Chabba
سکھوں کے کمیونٹی کِچن
سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق عقیدت مندوں کو خالی ہاتھ گھر واپس نہیں جانا چاہیے۔ گردوارے کی یاترا عموماﹰ تین چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سکھ گرووں کا درس، گندم کے آٹے سے تیار کردہ ’پرشاد‘ (نیاز)، اور کمیونٹی کچن میں پکائے گئے لنگر کو یاتریوں میں مفت تقسیم کرنا۔
تصویر: DW/S. Chabba
روزانہ لاکھوں افراد کا کھانا پکانا
گردوارہ کے باورچی خانوں میں لاکھوں افراد کے کھانے کی تیاری ہر صبح تین بجے سے شروع ہو جاتی ہے۔ مرد اور خواتین ایک ساتھ مل کر دال، روٹی اور چاول پکاتے ہیں۔ لنگر کا اہتمام دہلی کی ’سکھ گردوارہ مینیجمنٹ‘ اور سکھ عبادت گزاروں کے چندے کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
بیس سے زائد مقامات پر مفت لنگر کی سہولت
دہلی کے مضافاتی شہروں غازی آباد اور نوئڈا میں بھی مفت لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ کھانے کو ٹرک میں لوڈ کر کے متاثرہ علاقوں میں ترسیل کیا جاتا ہے۔ سرکاری حکام اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی مفت کھانے کے لیے گردوارہ سے رجوع کرتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Chabba
ضرورت مندوں کے لیے خوراک اور راشن
سکھوں کے لیے کسی ضرورت مند کی مدد کرنے کا کام ایک اعلیٰ فضیلت سمجھی جاتی ہے۔ غریب اور مستحق افراد طویل قطاروں میں روزانہ کھانے کا انتظار کرتے ہیں، جن میں نوجوان مرد اور خواتین، اسٹریٹ چائلڈ، معذور اور معمر افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ خاندان راشن وصول کرتے ہیں کیونکہ ان کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔
تصویر: DW/S. Chabba
انتہائی منظم طریقہ کار
یہاں دو الگ الگ قطاریں بنائی گئ ہیں۔ ایک مردوں کے لیے اور دوسری خواتین، بوڑھے اور معذور افراد کے لیے۔ کھانا تقسیم کرنے کے نظام کا اچھا بندوبست کیا گیا ہے لیکن ایک اعشاریہ تین ارب سے زائد آبادی کے ملک میں سماجی دوری کے ضوابط پر عملدرآمد یقیناﹰ مشکل ہے۔
تصویر: DW/S. Chabba
دھوپ میں کھانے کا انتظار
اس قطار میں کھڑے بہت سارے افراد کے لیے یہ ایک وقت کا کھانا، دن بھر کی واحد خوراک ہے۔ بعض افراد اپنے دیگر ضرورت مند دوستوں اور ساتھیوں کے لیے بھی کھانا ساتھ لے کر جاتے ہیں کیونکہ وہ گردوارے کے ٹرک تک نہیں آسکتے۔ لنگر کے یہ ٹرک ایسے مقامات تک پہنچتے ہیں جہاں ابھی تک سرکاری یا غیر سرکاری تنظیمیں پہنچنے سے قاصر رہی ہیں۔
تصویر: DW/S. Chabba
8 تصاویر1 | 8
ایک روز میں تقریباﹰ تریسٹھ ہزار نئے متاثرین
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک بھارت میں گزشتہ روز مجموعی طور پر مزید تقریباﹰ 63 ہزار افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو ئی۔ نئی دہلی میں ملکی وزارت صحت کے مطابق یہ گزشتہ برس اکتوبر کے وسط سے لے کر اب تک یومیہ بنیادوں پر نئی کورونا انفیکشنز کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق کل ہفتے کے روز اس جنوبی ایشیائی ملک میں کووڈ انیس کے مزید 312 مریض انتقال کر گئے۔ یہ بھی پچھلے سال کرسمس کے دنوں کے بعد سے ملک میں کووڈ انیس کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کی سب سے زیادہ یومیہ تعداد تھی۔
اشتہار
کئی دیگر ریاستوں میں بھی حالات بگڑتے ہوئے
بھارت میں رات کے وقت کرفیو کا فیصلہ اب تک صرف مغربی ریاست مہاراشٹر نے کیا ہے لیکن یہ بھارت کی وہ واحد ریاست نہیں ہے، جہاں کورونا وائرس کی وبا کی صورت حال تیزی سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔
بھارت کے متنازعہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ کسانوں نے قومی دارالحکومت کی سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کر رکھا ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن تعطل برقرار ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہار نہیں مانیں گے
قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
امید باقی ہے
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت نئے سیاہ قوانین واپس لے گی اور یہ احتجاج حکومت کے لیے آخری موقع ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ہم دہشت گرد نہیں
کسانو ں کی اس غیر معمولی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ مظاہرین نے 'خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے ہیں لیکن بعدازاں یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔
تصویر: Mohsin Javed
نوجوانوں کی امنگیں
مظاہرے میں بڑی تعداد میں نوجوان بھی موجود ہیں۔ ان میں اعلی تعلیم یافتہ اور مغربی ممالک سے واپس لوٹ کر زراعت کو روزگار کا ذریعہ بنانے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
خواتین بھی شانہ بشانہ
اس مظاہرے میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ان کا جوش و خروش قابل دید ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
زخمی مظاہرین
حکومت نے کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام حربے اور طریقے آزمائے۔ اس دوران آنسو گیس کے شیل لگنے سے کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
مظاہرین کی آمد کا سلسلہ جاری
ملک کے مختلف حصوں سے مرد اور خواتین کسانوں کے قومی دارالحکومت آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ملک بھر کے کسان شامل
مودی حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ صرف پنجاب کے کسانوں کی تحریک ہے لیکن متعدد ریاستوں کے کسانوں اور مختلف تنظیموں نے اس میں اپنی شمولیت کا ثبوت پیش کیا۔
تصویر: Mohsin Javed
جنگ جاری رہے گی
”ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک جنگ ہے اور یہ جاری رہے گی، جب تک مزدور کسان استحصال کا شکار ہیں۔" بھگت سنگھ
تصویر: Mohsin Javed
کھانے کی تیاری
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ تک رکنے کی تیاری کرکے آئے ہیں۔ انہیں کھانے پینے کی کوئی دشواری پیش نہیں آرہی ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے جانے والے کسان رہنمااپنا کھانا بھی ساتھ لے کر گئے تھے اور حکومتی ضیافت کو ٹھکرا دیا۔
تصویر: Mohsin Javed
ذرا تازہ دم ہوجاوں
مظاہرین کی خدمت کرتے کرتے تھک کر ایک کسان تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے ہوئے۔
تصویر: Mohsin Javed
ماں کا آغوش
کسان زمین کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور نیند کے لیے ماں کے آغوش سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
حالات سے باخبر
دھرنا اپنی جگہ، لیکن 'دیش اور دنیا‘ کے حالات سے باخبر رہنا بھی تو ضروری ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
علم کا کوئی بدل نہیں
مظاہروں کے ساتھ ساتھ حصول علم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مظاہرین نے 'روڈ لائبریری‘ بھی قائم کررکھی ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
ڈاکٹر اور دوائیں بھی دستیاب
مظاہرے میں شامل ہزاروں افراد کے لیے صرف کھانے پینے کا ہی نظم نہیں ہے بلکہ کسانوں نے ان کی صحت کی دیکھ بھال کا پورا انتظام بھی کررکھا ہے۔ درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملہ رضاکارانہ طور پر ہمہ وقت خدمت میں مصرو ف ہے۔
تصویر: Mohsin Javed
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے تمام سرحدو ں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کررکھے ہیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال دہلی میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ سڑکوں پر ہی بیٹھے رہیں گے۔
تصویر: Mohsin Javed
کنگنا رناوت پھنس گئیں
بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت نے مظاہرین کے خلاف ایک ٹوئٹ کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی زبردست نکتہ چینی ہورہی ہے۔ کنگنا نے گو اپنا ٹوئٹ واپس لے لیا ہے لیکن مظاہرین اب بھی ناراض ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'گودی‘ میڈیا سے ناراضگی
کسان حکومت نواز میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔انہوں نے ایسے ٹی وی چینلوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ بھارت میں 'گودی میڈیا‘ حکومت نواز میڈیا کو کہتے ہیں۔
تصویر: Mohsin Javed
'سوچھ بھارت‘
وزیر اعظم نریندر مودی کی مہم 'سوچھ بھارت‘ کی عملی تصویر۔ کسان خود ہی صفائی ستھرائی بھی کررہے ہیں۔
ٹیکسٹ: جاوید اختر تصاویر: محسن جاوید
نئی دہلی میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ کیرالا، پنجاب، کرناٹک، گجرات، تامل ناڈو، ہریانہ اور مدھیہ پردیش کی یونین ریاستوں میں بھی کورونا وائرس کا پھیلاؤ بہت تیز رفتار اور انتہائی تشویش ناک ہے۔
ویکسینیشن کی صورت حال
بھارت کی مجموعی آبادی تقریباﹰ ایک ارب 35 کروڑ ہے۔ ماہرین کے مطابق وہاں اب تک صرف 40 ملین سے کچھ ہی زیادہ شہریوں کو کورونا ویکسین کا پہلا ٹیکا لگایا گیا ہے۔ یہ تعداد ملکی آبادی کے چار فیصد سے بھی کم بنتی ہے۔
ان حالات میں بہت سے عوامی اور سیاسی حلقے وزیر اعظم مودی کی حکومت کی کورونا کے خلاف پالیسی اور پبلک ویکسینیشن سے متعلق ترجیحات پر کھل کر تنقید بھی کرنے لگے ہیں۔
اس ملک میں تاحال کورونا ویکسین تمام شہریوں کو تو کیا، ملک کی نصف یا چوتھائی آبادی کو بھی نہیں لگائی جا سکی۔ مگر بھارت اب تک دنیا کے 77 ممالک کو اس ویکسین کی 61 ملین خوراکیں عطیے کے طور پر فراہم کر چکا یا تجارتی بنیادوں پر فروخت کر چکا ہے۔
م م / ب ج (روئٹرز، اے ایف پی)
وبا اور فضائی آلودگی کے سائے تلے ديوالی
بھارت سمیت دنیا بھر میں ہندو مذہب کے ماننے والے دیوالی منا رہے ہیں۔ بھارت میں کورونا کی وبا اور بڑے شہروں ميں شديد آلودگی کے باوجود عوام نے يہ مذہبی تہوار روايتی جوش و خروش سے منايا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/D. Talukdar
کورونا ہے تو کيا ہوا، کھل کے خريدو سونا
بھارت ميں ديوالی کے موقع پر سونا خريدنا ايک رواج ہے، جس کی وجہ سے اس تہوار کے آتے سونے کی خرید و فروخت بڑھ جاتی ہے۔ ايک اندازے کے مطابق سونے کی سالانہ تجارت کا چاليس فيصد اسی تہوار کے قريب ہوتا ہے۔ يہ منظر راجھستان کے شہر جے پور کے مشہور جواہری بازار کی ہے، جس ميں کاروباری سرگرمياں واضح ہيں۔
تصویر: Vishal Bhatnagar/NurPhoto/picture alliance
پٹاخوں کی فروخت بھی جاری رہی
يہ مغربی بنگال کے شہر کلکتہ کی ايک مارکيٹ کی تصوير ہے، جہاں پٹاخے فروخت کيے جا رہے ہيں۔ ديوالی کے موقع پر پٹاخے پھوڑنا بھی ايک روايت ہے مگر کئی شہروں ميں آلودگی کی پريشان کن سطح کی وجہ سے اس عمل کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
تصویر: Payel Samanta/DW
سب سے زيادہ ديے جلانے کا ريکارڈ
ايودھيا ميں دريائے سريو کے کنارے ديے جلانے کی روايت بھی کافی پرانی ہے۔ تيرہ نومبر کی رات لوگوں نے اس مقام پر 584,572 سے زائد ديے جلائے، جو ايک نيا ريکارڈ ہے۔ گينس بک آف ورلڈ ريکارڈز ميں اس کا تذکرہ بھی کيا گيا۔ يہ مسلسل دوسرا سال ہے کہ اسی مقام پر سب سے زيادہ ديے جلانے کا ريکارڈ قائم ہوا۔
تصویر: Rajeev Bhatt/AP/picture alliance
پوجا کا اہتمام، حفاظتی تدابير کے ساتھ
مغربی بنگال ميں يہ ’بتياچريا بڑی پوجا‘ کا منظر ہے۔ يہ مغربی بنگال کی قديم ترين پوجا ہے، جو خاص ديوالی کے موقع پر کی جاتی ہے۔ بھارت بھر ميں اس بار پوجا کی مختلف تقريبات ميں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے متعلق قوانين کا کچھ حد تک احترام کيا گيا۔
مذہبی ہم آہنگی: ديوالی اور ہولی مغربی ممالک ميں بھی مقبول
يہ تصوير ملائيشيا ميں ايک خاتون کی ہے، جن کے ہاتھوں ميں پھلجھڑی ہے۔ ديوالی کا تہوار نہ صرف بھارت بلکہ دنيا بھر ميں جہاں جہاں ہندو موجود ہيں، وہاں منايا جاتا ہے۔ حاليہ برسوں ميں ديوالی اور ہولی جيسے تہوار مغربی ممالک کے عوام ميں بھی مقبول ہوتے جا رہے ہيں۔
تصویر: Annice Lyn/Zuma/picture alliance
ديوالی اور فضائی آلودگی کا مسئلہ
بھارت ميں ہر سال موسم خراں کے مہينوں ميں فضائی آلودگی يا اسموگ کا مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے۔ ديوالی کے موقع پر پٹاخوں سے اس ميں اضافہ ہوتا ہے اور يہی وجہ ہے کہ حکام نے چند رياستوں ميں پٹاخوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
تصویر: DW/A. Ansari
وبا کے سائے تلے ديوالی بھی کوئی ديوالی؟
بھارت کورونا کی وبا سے دوسرا سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ وہاں اب تک ستاسی لاکھ افراد اس وائرس کا شکار بن چکے ہيں جبکہ ايک لاکھ انتيس ہزار افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ کئی افراد کے ليے ديوالی کی تقريبات بھی مدہم رہيں۔