نئی بریگزٹ ڈیل شیخیاں مارنے سے بھی نہیں، جانسن کو کھلا پیغام
26 جولائی 2019
یورپ نے نئے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو پیغام دیا ہے کہ شیخیاں مار کر بھی کوئی نئی بریگزٹ ڈیل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایک اعلیٰ جرمن سیاستدان کے بقول جانسن ڈرا دھمکا کر بھی یورپی اتفاق رائے کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس سال اکتوبر کے آخر تک برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کی ڈیڈ لائن پر عمل درآمد کے سلسلے میں بورس جانسن اپنے جس عزم کا اظہار کر چکے ہیں، وہ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گا۔
اس بارے میں چانسلر انگیلا میرکل کے ایک قریبی سیاسی اتحادی اور جرمن رکن پارلیمان نے بورس جانسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے برطانوی وزیر اعظم کو یورپ کو ڈرانے دھمکانے اور شیخیاں بگھارنے کی سوچ ترک کر دینا چاہیے۔
بورس جانسن نے بدھ 24 جولائی کو برطانیہ میں مستعفی ہو جانے والی سربراہ حکومت ٹریزا مے کے جانشین کے طور پر وزیر اعظم کا منصب سنبھالا تھا۔ساتھ ہی انہوں نے برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج یا بریگزٹ کے سلسلے میں لندن اور برسلز کے مابین پائے جانے والے اختلافات کے حوالے سے ایک ایسی بات بھی کہہ دی تھی، جو کسی مفاہمت پر آمادگی تو بالکل نہیں تھی، بلکہ اسے جلتی پر تیل کا نام ہی دیا جا سکتا تھا۔
بورس جانسن نے کہا تھا کہ وہ کوشش کریں گے کہ یورپی یونین کے ساتھ ایک نیا بریگزٹ معاہدہ طے کیا جائے۔ پھر ساتھ ہی انہوں نے یہ دھمکی بھی دے دی تھی کہ اگر یونین نے کوئی نیا بریگزٹ معاہدہ طے کرنے سے انکار کر دیا، تو ان کی قیادت میں برطانیہ 31 اکتوبر کو بغیر کسی بریگزٹ ڈیل کے ہی یورپی یونین سے نکل جائے گا، یعنی تب یہ بھی طے نہیں ہو گا کہ بریگزٹ کے بعد یونین اور برطانیہ کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
جانسن کے اس موقف کے فوری بعد یورپی یونین کی طرف سے کہا گہا تھا کہ لندن کے ساتھ ایک بریگزٹ ڈیل طے ہوئی تھی اور اب کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی گزشتہ ڈیل پر نئے سرے سے کوئی بات چیت کی جائے گی۔
بریگزٹ کے حامیوں پر مشتمل نئی برطانوی کابینہ
اس پس منظر میں جرمن پارلیمان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ نوربرٹ روئٹگن نے جمعرات 25 جولائی کو رات گئے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں بورس جانسن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ''ڈیئر بورس جانسن! نہ تو شیخی بگھارنے والی تقریروں سے اور نہ ہی ڈرا دھمکا کر اور زچ کرنے سے، آپ (بریگزٹ سے متعلق) یورپی یونین کے اصولوں اور اتحاد میں سے کچھ بھی توڑنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘
ساتھ ہی روئٹگن نے اپنی اس ٹویٹ میں یہ بھی لکھا، ''اس کے بجائے ہم اپنے دماغوں کو ٹھنڈا ہی رکھیں گے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بورس جانسن نے اپنی جو کابینہ تشکیل دی ہے، وہ لغوی اور حقیقی دونوں معنوں میں بریگزٹ کے حامیوں پر مشتمل کابینہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بورس جانسن اس سلسلے میں اپنے ہی ملک اور یورپی براعظم کو اپنے قریب لانے میں ناکام رہے ہیں۔‘‘
اس سے قبل کل جمعرات کو یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر نے بھی بورس جانسن کو بتا دیا تھا کہ جانسن کی پیش رو ٹریزا مے کے ساتھ یورپی یونین نے گزشتہ برس نومبر میں جو ڈیل کی تھی، وہی وہ بہترین اور واحد بریگزٹ ڈیل ہے، جو برسلز کی طرف سے لندن کو پیش کی جا سکتی ہے۔
م م / ک م / روئٹرز
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔