نئی بریگزٹ ڈیل کی برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری: ایک اور مشکل
17 اکتوبر 2019
یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا کی نئی ڈیل طے پا گئی ہے۔ اس ڈیل کے لیے برطانوی اور یونین کے مذاکرات کار مسلسل مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے تھے۔
اشتہار
یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے رہنماؤں اور وزرائے خارجہ کا خیال ہے اب سارا معاملہ برطانوی پارلیمنٹ میں طے ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس مرتبہ صورت حال قدرے مختلف ہے کیونکہ ٹریزا مے کی مرتبہ طے پانے والے ڈیل کی راہ میں آئرش مسئلے کے ساتھ ساتھ کئی اور بھی معاملے رکاوٹ کے طور پر موجود تھے۔ اگر اس معاہدے کے حق میں وزیراعظم جانسن ارکان پارلیمان کی حمایت حماصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والی ڈیل میں سب سے اہم مسئلہ آئرلینڈ کا تھا۔ نئی ڈیل کے تحت شمالی آئرلینڈ میں یورپی یونین کی مارکیٹوں کے بعض قوانین نافذ العمل رہیں گے تا کہ اُسے یونین کی رکن ریاست جمہوریہ آئر لینڈ کے ساتھ سرحدی معاملات میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یورپی یونین کے مذاکرات کار مشیل بارنیئر کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے بعد یورپی یونین اور برطانیہ آزاد تجارت کے سمجھوتے کے لیے مذاکراتی سلسلے کا آغاز کر سکیں گے۔ دوسری جانب اس معاہدے کی توثیق یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی جانب سے بھی ابھی ہونا باقی ہے۔ جو آج سترہ اکتوبر بروز جمعرات شروع ہونے والی سمٹ میں ممکن ہے۔ برطانوی پارلیمان سے معاہدے کی توثیق ممکنہ طور پر ہفتہ انیس اکتوبر کے روز حاصل کی جائے گی۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اس امید کا اظہار کیا ے کہ وہ اراکان پارلیمان کی اکثریت کو اس ڈیل کے حق میں راضی کر لیں گے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ سابقہ بریگزٹ معاہدے کو برطانوی پارلیمنٹ نے سابقہ وزیراعظم ٹریزا مے کے دور میں تین مرتبہ مسترد کیا تھا۔
یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر نے ستائیس رکنی یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ اس نئی بریگزٹ ڈیل کی حمایت کریں۔ ینکر نے اس تناظر میں ایک خط بھی یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کو روانہ کیا ہے۔ انہوں نے رکن ریاستوں پر زور دیا کہ وہ اپنے تعاون سے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے عمل کو مکمل کریں۔
اس ڈیل کے حوالے سے برطانیہ میں ابھی تک منفی ردعمل سامنے آیا ہے۔ کئی سیاسی حلقوں نے اس ڈیل کو بھی ناقص قرار دیا ہے۔ اب تک برطانوی رہنماؤں کا ردعمل کچھ یوں رہا ہے:
برٹش لیبر پارٹی
برطانیہ کی مرکزی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن نے نئی ڈیل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کوربن کے مطابق وزیراعظم جانسن نے ٹریزا مے کی ڈیل سے بھی خراب ڈیل پر اتفاق کیا ہے اور اسے پوری طرح مسترد کیا جاتا ہے۔
نکولا اسٹرجن
اسکاٹ لینڈ کی رہنما نکولا اسٹرجن نے کہا ہے کہ اُن کی سیاسی جماعت آج طے پانے والے نئے بریگزٹ معاہدے کو بھی مسترد کرتی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے اسکاٹ لینڈ یورپی یونین سے باہر ہو جائے گا۔
نکولا اسٹرجن لندن حکومت میں برطانوی علاقے اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ سیکرٹری ہیں۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی کی لیڈر کا مزید کہنا ہے کہ یورپی یونین سے باہر ہونے کا مطلب صرف سنگل مارکیٹ سے باہر ہی ہونا نہیں، بلکہ یہ اسکاٹش عوام کی جمہوری خواہشات کے منافی بھی ہو گا۔
آئرش وزیر خارجہ
آئر لینڈ کے وزیر خارجہ سائمن کووینی نے نئے معاہدے کو 'مستقبل کی سمت ایک بڑی جست‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیل واقعتاً حمایت کے قابل ہے۔ کووینی کے مطابق اس ڈیل میں آئرش عوام کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے اور گزشتہ تین برسوں سے حل نہ ہونے والے معاملات کو اتفاق رائے سے طے کر لیا گیا ہے۔
نائجل فراج
بریگزٹ کے حامی انگریز سیاستدان نائجل فراج نے برطانوی پارلیمنٹ سے اپیل کی ہے کہ تمام ارکان اس نئی ڈیل کی مخالفت کریں کیونکہ یہ حقیقتاً برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا نہیں بلکہ اس معاہدے کے بعد بھی برطانیہ یورپی یونین کا پابند ہو گا۔ فراج نے مزید کہا کہ شفاف تعلق کو ختم کرنا ایک اور یورپی معاہدے سے بہتر ہے۔ انہوں نے ملک میں نئے الیکشن کو ضروری قرار دینے کے ساتھ ساتھ بریگزٹ کے لیے مقرر تاریخ اکتیس اکتوبر میں توسیع کا مطالبہ بھی کیا۔
ع ح ⁄ ش ح (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
لندن جانے کی دس وجوہات
بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی پارلیمان میں رائے شماری پر پوری دنیا کی نگاہیں ہیں۔ مگر لندن کے مرکزِ نگاہ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ یہ یورپ میں سیر کے لیے جانے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، مگر کیوں؟
تصویر: picture-alliance/Daniel Kalker
دریائے ٹیمز
لندن میں سیاحت کے لیے سب سے زیادہ مشہور جگہیں دریائے ٹیمز کے کنارے ہیں۔ لندن میں اس دریا کے جنوبی کنارے پر ’لندن آئی‘، برطانوی پارلیمان کا حامل ویسٹ منسٹر محل اور مشہورِ زمانہ بگ بین ٹاور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Simoni
پُل
دریائے ٹیمز پر کئی پل ہیں، مگر ٹاور برج جیسی شہرت کسی دوسرے پل کی نہیں۔ سیاح اس پل کے انجن روم میں جا سکتے ہیں، جہاں کوئلے کے اصل برنر اور بھاپ کے انجن موجود ہیں، جو کسی دور میں کشتیوں کے گزرنے کے لیے پل کو اوپر اٹھانے کا کام سرانجام دیتے تھے۔ وہ افراد جو اونچائی سے ڈرتے نہیں، وہ اس پل پر شیشے کی بنی 42 میٹر اونچی ’اسکائی واک‘ پر چل سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Copson
عجائب گھر
لندن میں وکٹوریہ اور البرٹ میوزم اور برٹش میوزم کو دنیا بھر میں بہترین عجائب گھر قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیٹ ماڈرن میوزم میں جدید فنی تخلیقات موجود ہیں، جب کہ یہ ماضی میں ایک بجلی گھر ہوا کرتا تھا۔ بہت سے دیگر عجائب گھروں کی طرح اس میوزم میں داخلے کی بھی کوئی فیس نہیں۔
تصویر: Switch House, Tate Modern/Iwan Baan
موسیقی
کانسرٹس، کانسرٹس اور کانسرٹس۔ موسیقی کے دل دادہ افراد کو لندن ضرور جانا چاہیے۔ اس شہر میں کسی چھوٹے سے پب سے لے کر موسیقی کی بڑی تقریبات تک، ہر جگہ موسیقی کی بہار ہے۔ خصوصاﹰ موسم گرما میں ہائیڈ پارک لندن میں تو جیسے میلہ لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance7Photoshot/PYMCA
محلات
بکنگھم پیلس ملکہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس محل کے متعدد کمرے جولائی تا اکتوبر عام افراد کے دیکھنے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ملکہ اسکاٹ لینڈ میں ہوتی ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے دیگر بہت سے محل بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/DPA/M. Skolimowska
پارک
لندن میں بہت سے قابل دید پارک، باغات اور باغیچے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبزہ لندن کا خاصا ہے۔ لندن کے ریجنٹ پارک کی پریمروز پہاڑی سے پورا شہر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/Axiom
دکانیں
لندن میں ہر طرح کے بجٹ کے لیے اور ہر دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ چھوٹے بوتیک سے لے کر بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تک، حتیٰ کہ سیکنڈ ہینڈ سامان کی دکانیں بھی۔ اختتام ہفتہ پر لندن میں جگہ جگہ مارکیٹیں لگی نظر آتی ہیں۔ اس تصویر میں کیمڈن مارکیٹ کا منظر ہے۔ یہ مارکیٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner
گرجا گھر
ویسٹ منسٹر ایبے کے ساتھ سینٹ پال کا کیتھیڈرل لندن کا مشہور زمانہ گرجا گھر ہے، مگر لندن میں بہت سے دیگر کیتھیڈرلز بھی ہیں، جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ ویسٹ منسٹر ایبے سن 1066ء سے شاہی خاندان کے انتقال کر جانے والے افراد کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس میں مشہور زمانہ سائنس دانوں کی قبریں بھی ہیں، جن میں ڈارون اور جے جے تھامسن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک کئی شخصیات شامل ہیں۔
دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر ’شارڈ‘ سے لندن شہر پر ایک طائرانہ نگاہ۔ 244 میٹر اونچائی سے جیسے کوئی پورا شہر آپ کے سامنے رکھ دے۔ شیشے اور اسٹیل سے بنی یہ عمارت مغربی یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے، اسے اسٹار آرکیٹکٹ رینزو پیانو نے ڈیزائن کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Ertman
مے خانے
لندن کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی اگر اس شہر سے یہ مے خانے نکال دیے جائیں۔ مقامی طور پر انہیں ’پب‘ کہا جاتا ہے اور یہاں آپ کو ہر طرح کی بیئر اور الکوحل والے دیگر مشروبات کی بہتات ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوگ گپ شپ بھی کرتے ہیں اور کھاتے پیتے شامیں گزارتے ہیں۔