نئی جماعت کا افغانستان میں تبدیلی سے تعلق نہیں، محسن داوڑ
2 ستمبر 2021محسن داوڑ نے بدھ یکم ستمبر کو سیاسی جماعت کے قیام کے باقاعدہ اعلان کے موقع پر کہا کہ نیشل ڈیموکریٹک موومنٹ ملک میں سیکولر ، وفاقی اور جمہوریت نظام کی مضبوطی کے لیے کام کرے گی۔
پشاور میں نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے قیام کے اعلان کے موقع پر محسن داوڑ نے کہا کہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ بنیادی آزادیوں بشمول آزادی رائے کا حامل ہو۔ اس حوالے سے محسن داوڑ نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کی۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کی گرفتاری
یہاں آ کر دیکھیں ہر طرف پی ٹی ایم نظر آئے گی، منظور پشتین
ڈی ڈبلیو: ایک نئی جماعت کے قیام کی وجہ کیا ہے؟
محسن داوڑ: ایک نئی پارٹی کے قیام کی ضرورت میں اس لیے محسوس ہوئی کیوں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سیاسی خلا ہمارے پورے خطے میں موجود ہے اور اسی سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسی سیاسی تحریک، ایسی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے، جو نوجوان مرد و خواتین کو اسپیس دے۔ ہماری آبادی کا نصف سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ جمہوری بنیادوں پر ہم کچھ سیاسی ڈھانچوں کی تشکیل کر سکیں۔ کیوں کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جنتی بھی سیاسی جماعتیں ہیں وہ موروثیت کا شکار ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہاں جو فیصلہ سازی کا عمل ہے، اس میں جمہوریت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اگر کسی سیاسی جماعت کے ایک آدھ یا چند افراد مصلحت کا شکار ہو جائیں، تو پوری سیاسی جماعت ہی اس مصلحت میں آ جاتی ہے۔ اور پھر جس طرح جی ایچ کیو ( پاکستانی فوج کا ہیڈکوارٹر) نے پورے سیاسی نظام کو جکڑ رکھا ہے، تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی ریاست کو اس آمریت سے آزاد کرنے کے لیے ہمیں ایک سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔
ڈی ڈبلیو: آپ کی جانب سے سیاسی جماعت کے اعلان کے ساتھ ہی ان چہ مگوئیوں کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ ان میں کتنی صداقت ہے؟
محسن داوڑ: میں ان کو اس لیے درست نہیں سمجھتا کیوں کہ جب ہم پی ٹی ایم بنا رہے تھے، میں تب عوامی نیشنل پارٹی کے یوتھ ونگ کا چیئرمین تھا۔کسی سیاسی جماعت کے بننے سے پی ٹی ایم کمزور نہیں ہو گی بلکہ اس کے بیانیے کو مزید تقویت ملے گی۔ یعنی ایک بڑی سیاسی جماعت اس کو سپورٹ کرے گی۔ دوسری بات پی ٹی ایم تو بہت سی سیاسی جماعتوں کے لوگ ہیں، کیوں کہ وہ خود کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ پی ٹی ایم جن پانچ نکات کے لیے بنی اور نکلی تھی، ان کے لیے سپورٹ پہلے سے بھی زیادہ شدت سے جاری رہے گی۔
ڈی ڈبلیو: افغانستان میں طالبان کے قبضے اور آپ کی جانب سے پارٹی کے قیام کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیوں کہ آپ نے سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان ٹھیک اس وقت کیا ہے، جب طالبان کابل کا انتظام سنبھال چکے ہیں۔
محسن داوڑ: دیکھیے افغانستان کا مسئلہ تو بہت اچانک ہوا ہے۔ ظاہری بات ہے، پورے خطے پر اس کا ایک اثر تو پڑا ہے۔ لیکن اس کا ہماری سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم پچھلے ڈیڑھ دو سال سے صلاح مشورے کر رہے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ میچور ہو رہی تھی اور اب ہم اس حتمی مرحلے پر پہنچے ہیں۔ وہاں جو ہوا ہے یہ فقط ایک اتفاق ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں یہ پیش رفت ہوئی، تو ہم نے یہاں سیاسی جماعت بنانے کا سوچا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ وہاں جو کچھ ہوا ہے، اس بابت یہاں قوم پرست جماعتوں نے وہ کردار ادا نہیں کیا، جو افغان معاملے میں انہیں کرنا چاہیے تھا یا جس طرح افغان عوام کے ساتھ انہیں کھڑا ہونا چاہیے تھا اور طالبان کے قبضے کی مخالفت کرنا چاہیے تھی۔
ڈی ڈبلیو: افغانستان پر طالبان کے قبضے کا پاکستان میں پشتون قوم پرست سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟
محسن داوڑ: پاکستان میں جتنی بھی قوم پرست قوتیں ہیں، کسی نہ کسی طرح سے خود کو افغانستان کے ساتھ جوڑتی رہی ہیں۔ جو کچھ افغانستان میں ہوا ہے، یہ بہت بڑی پیش رفت ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے فرق تو ضرور پڑے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ بن جاتی ہے۔ کیوں کہ اس بحران میں قوم پرست جماعتوں کا کردار اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں لوگوں کے تحفظ کے لیے اور بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت بن جاتی ہے۔
ڈی ڈبلیو: کیا نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ پشتون ڈیموکریٹک موومنٹ ہے یا یہ قومی یا وفاقی سطح کی جماعت ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس میں دیگر صوبوں سے کون کون شامل ہے اور دیگر صوبوں میں اس جماعت کی موجودگی کیسے یقینی بنائے جائے گی؟
محسن داوڑ: ظاہر ہے یہ پشتون قوم پرست جماعت ہے، مگر پاکستان میں جتنی بھی محکوم قومیتیں ہیں، ان سب کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ پاکستان میں جتنے بھی پروگریسیو سوچ رکھنے والے لوگ ہیں، جو آمریت کی مخالفت کرتے آ رہے ہیں، ظاہر ہے ان سب سے ہماری نشستیں ہوں گی۔ پاکستان کی استحصال کی شکار تمام قوموں کے مسائل پر بات بھی ہو گی، ایک مشترکہ لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔ اس وقت ہماری جماعت کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں یعنی چاروں صوبوں کی نمائندگی موجود ہے۔