نئی دوا: ایک خوراک میں ملیریا ختم
3 ستمبر 2010سائنسی تحقیق کے معتبر جریدے ’سائنس‘ میں ملیریا بخار کے حوالے سے اس نئی دوائی کی تفصیلات شائع کی گئی ہیں۔ اس دوائی کو تیار کرنے والے ماہرین کی سربراہی ایلزابیتھ ونزلر نے کی۔ ان کا تعلق سکرپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے ہے۔ ونزلر اس نئی دوا کی تیاری پر انتہائی پرمسرت ہیں اور ان کے خیال میں ملیریا جیسی مہلک بیماری کے علاج اور طبی سائنس میں یہ ریسرچ ایک انقلاب آفرین دوائی کی وجہ ثابت ہو گی۔
ملیریا کے علاج کا جدید طریقہ بسا اوقات پیچیدگیوں کا شکار ہو کر مریض میں انتڑیوں کی سوزش بھی پیدا کر دیتا ہے۔ اس سوزش کے بعد مریض ملیریا کے بخار سے نکل کر ٹائیفائڈ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مروجہ طریقے میں معالج مریض کو ملیریا کے بخار کی صورت میں روزانہ بنیادوں پر ایک سے چار مرتبہ تک دوائی لینے کا پابند بنا دیتا ہے۔ اس دوا کے استعمال سے انسانی بدن میں پایا جانے والا ملیریا کے پیراسائٹ ’پلازموڈیم‘ کا سائیکل سات دنوں میں ختم ہو جاتا ہے۔
لیکن ملیریا کا سبب بننے والے پیراسائٹ نے اب تک کئی میسر ادویات کے خلاف مدافعت پیدا کر لی ہے اور یوں بہت سی ادویات بےاثر ثابت ہونے لگی ہیں۔ اس مناسبت سے تازہ دوا میں خاص طور پر پیراسائٹ کی موجودہ صورت حال کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس دوائی کا مرکب اب تک تیار کردہ تمام ادویات سے مختلف ہے اور یہی اس کی بڑی خوبی ہے۔ امریکی ڈرگ ایجنسی کی طرف سے اس دوائی کی منظوری کے بعد انسانوں پر تجربات کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔
اس دوا کی تیاری میں نووارٹس نامی ادارے کی کوششیں سب سے زیادہ ہیں اور اسی کی ایک تجربہ گاہ میں یہ نئی دوائی تیار کی گئی ہے۔ اس کاوش میں کئی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں بھی شریک ہیں۔ محققین کو امریکہ، برطانیہ، سنگاپور، سوئٹزر لینڈ اور تھائی لینڈ کی اہم یونیورسٹیوں کا تعاون بھی حاصل رہا۔
عالمی ادارہء صحت کے مطابق ہر سال لاکھوں افراد ملیریا کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ براعظم افریقہ میں یہ بیماری ہر سال لاکھوں کم سن اور نوعمر بچوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔ اسی لئے افریقہ میں ملیریا ایک مہلک مرض سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں بھی موسم برسات میں اس بخار کے پھیلنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ ملیریا کا مچھر کھڑے پانی پر افزائش پاتا ہے۔ اس کے کاٹنے سے کوئی بھی شخص بخار کی زد میں آ سکتا ہے۔ اس بخار میں بار بار قے آنا مریض کو موت کے منہ میں یا اس کے قریب لے جاتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک