1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

نئی دہلی حکومت کابل کو ’اکسا‘ رہی ہے، شہباز شریف

رابعہ بگٹی ایجنسیاں
19 اکتوبر 2025

افغانستان اور پاکستان کے مابین حاليہ سرحدی جھڑپیں خونريز لڑائی میں تبدیل ہو گئیں۔ پاکستان نے اس بد امنی کا الزام افغانستان کے ساتھ ساتھ بھارت پر بھی عائد کیا ہے۔

Shahbaz Sharif
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ نئی دہلی حکومت افغان طالبان کو 'اکسا‘ رہی ہے جب کہ ان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کابل کو 'بھارت کی پراکسی‘ سے تعبیر کیا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اس طرح کی بیان بازی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دونوں ممالک کئی بار ایک دوسرے پر خطے میں عدم استحکام پھيلانے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔ لیکن حال ہی میں افغان طالبان کی نئی دہلی حکومت کے ساتھ بڑھتی قربتیں مبينہ طور پر پاکستان کے لیے تشویش کا سبب بنی ہیں۔

افغانستان کے وزیر خارجہ نے 9 اکتوبر کو نئی دہلی کا دورہ کيا، جو 2021ء میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد کسی اعلیٰ رہنما کا پہلا دورہ ہے۔ اس دورے کے دوران ہی پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر کشیدگی دیکھنے میں آئی۔ بين الاقوامی امور کے ماہر واحد فقیری کا ماننا ہے کہ پاکستان کا يہ ردعمل بھارت اور افغانستان کے بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کی وجہ سے ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ نئی دہلی حکومت نے مبينہ طور پر افغان حکام کو ایک ہفتے کے دورے پر اسلام آباد اور کابل کے مابين حاليہ کشيدگی کو ہوا دينے کے ليے بلايا تھا۔

پاک افغان بارڈ پر شدید کشیدگی کے بعد سیز فائر، اب آگے کیا؟

03:58

This browser does not support the video element.

افغان طالبان نے اسلام آباد پر دراندازی کا الزام لگایا۔ جب کہ پاکستان کا الزام ہے کہ کابل انتظاميہ پاکستانی طالبان سميت ايسے گروپوں کی پشت پناہی کر رہی ہے، جو سرحد پر حملے کرتے ہيں۔ گزشتہ قريب ايک ہفتے سے دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں میں ہونے والی شديد ترين جھڑپيں جاری رہیں۔ تاہم قطری دارالحکومت دوحہ ميں گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات کے بعد 19 اکتوبر کو دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہو گيا ہے۔

سن 2021ء ميں امریکہ کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کی واپسی کے بعد سے کسی زمانے ميں قریبی اتحادی افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ امریکی انخلاء کے بعد اس وقت کے پاکستانی انٹیلیجنس چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ابتداء ميں مثبت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب ٹھيک ہو جائے گا۔ لیکن اس کے بعد پاکستان میں عسکریت پسند گروہوں کے حملوں میں اضافہ ہوتا رہا اور اسلام آباد مسلسل طالبان حکام پر عسکریت پسند گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام لگاتا رہا۔

پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے وابستہ تنظیمیں ان حملوں کی ذمہ دار ہیں اور ان کا ہدف عموماً پاکستان کے عسکری ادارے ہوتے ہیں۔ انہی اداروں کے لیے کام کرنے والے ایک ذريعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ صرف اکتوبر میں افغانستان سے وابستہ حملہ آوروں کے حملوں میں 100 سے زائد سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کئی مہینوں سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ تشدد کے بڑھتے واقعات بھی اسی کی وجہ سے ہیں۔

حالیہ پاک افغان کشیدگی کے کیا نتائج مرتب ہوں گے؟

04:49

This browser does not support the video element.

دوسری جانب سابق پاکستانی سفارت کار ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ طالبان کے وزیر خارجہ کا نئی دہلی کا دورہ ناراضگی کی ايک وجہ ہو سکتا ہے تاہم یہ 'پاکستانی انتقامی کارروائیوں‘ کا محرک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ''پاکستان کے غصے اور مایوسی کا اصل محرک طالبان حکام کا ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے سے انکار ہے۔‘‘

بھارت نے تاہم پاکستان کے حوالے سے کہا ہے کہ اسلام آباد کو اپنے ملک کے اندرونی معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور پڑوسیوں پر الزام لگانے کی عادت کو ترک کرنا چاہیے۔

ادارت، عاصم سلیم

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں