1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی دہلی، ’خواتین کے مصائب کم نہ ہوئے‘

عاطف بلوچ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
8 نومبر 2017

’نئی دہلی بس گینگ ریپ‘ کے واقعے کو تقریبا پانچ برس بیت چکے ہیں۔ اس لرزہ خیز واردات کے بعد حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے اصلاحاتی اقدامات لیے لیکن صورتحال میں بہتری ابھی تک نظر نہیں آئی ہے۔

Indien Pakistan Symbolbild Vergewaltigung
تصویر: Getty Images

پانچ برس قبل نئی دہلی میں ایک چلتی بس میں ایک خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعے کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ تب عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ نئی دہلی میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر خصوصی قوانین بنائے جائیں۔ اس عوامی مہم کے بعد اگرچہ حکومت نے اس حوالے سے کئی اقدامات لیے لیکن ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ بالخصوص بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں صورتحال اب بھی ویسی ہی ہے، جیسا کہ پانچ برس قبل تھی۔

بھارت میں سو سالہ خاتون کا ریپ، معمر خاتون انتقال کر گئیں

چلتی کار میں خاتون کے ساتھ  جنسی زیادتی

نئی دہلی میں ہر چار گھنٹے میں ایک ریپ

بھارت: گینگ ریپ کے ملزم کی رہائی پر احتجاج

01:50

This browser does not support the video element.

امریکی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کے لیے ڈائریکٹر مینا کشی گنگولی نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو میں بتایا کہ بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی و جسمانی تشدد کے واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ گنگولی نے کہا، ’’کچھ ریاستوں میں محکمہ پولیس اور طبی نظام میں ان نئے قواعد پر عمل نہیں کیا جا رہا، جو حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے بنائیں ہیں۔‘‘

ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست راجھستان میں ریپ کی شکایت کرنے والی خواتین کا ’ٹو فنگر ٹیسٹ‘ اب بھی کیا جاتا ہے تاکہ اس کے دعوے کی صداقت کو جانچا جا سکے۔ یہ امر اہم ہے کہ بھارتی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں اس طرح کے ٹیسٹ کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ سن دو ہزار چودہ میں نئے قوانین متعارف کرائے گئے تھے لیکن ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق متعلقہ ڈاکٹر اس تناظر میں بنائے گئے نئے قواعد و ضوابط پر عمل پیرا نہیں ہو رہے ہیں۔

مینا کشی گنگولی کے مطابق حکومت کی طرف سے جنسی زیادتی کی شکار بننے والی خواتین کے ساتھ ہمدردی کے ارادے پر شک نہیں کیا جا سکتا تاہم حکومتی نظام میں ایسی خرابیاں ہیں کہ نئے بنائے جانے والے ضوابط پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے خاتمے کے لیے جو اصلاحاتی ضوابط بنائے گئے ہیں، ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔

ناقدین کے مطابق بھارت میں جنسی زیادتی کے واقعات کثرت سے رونما ہوتے ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر انہیں رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ جو خواتین اس طرح کی شکایات متعلقہ حکام تک لے جاتی ہیں، ان کی مناسب طریقے سے شنوائی نہیں ہو پاتی۔

 سن دو ہزار پندرہ کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں جنسی زیادتی کے 35 ہزار کیس درج کیے گئے تھے جبکہ ان میں سے سات ہزار کیسوں میں انصاف بھی مہیا کیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران ان کیسوں میں چالیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں