ایران کا کہنا ہے کہ دہلی دھماکے کے لیے ایران پر الزام لگانے کے پیچھے "ایران - بھارت رشتوں کے دشمنوں کے مذموم عزائم ہیں۔"
اشتہار
ایران کا کہنا ہے کہ دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کے پاس دھماکے کے لیے ایران پر جو،’’غیر مصدقہ‘‘ الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، اس بارے میں بھارتی حکومت کو تفتیش کر نے کے بعد حقیقت کو سامنے لانا چاہیے۔
نئی دہلی میں ایرانی سفیر مہدی نبی زادے نے صحافیوں سے بات چيت میں اس بم دھماکے میں ایران کے ملوث ہونے سے متعلق الزامات کو نہ تو تسلیم کیا اور نہ ہی مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ اس حوالے سے اصل حقیقت سے آگاہ کرے۔‘‘
اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، "ہم نہ تو اسے (دہلی دھماکے میں تہران کے ہاتھ ہونے سے متعلق اسرائیلی الزامات) تسلیم کر رہے ہیں اور نہ ہی اسے مسترد کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ مختصر سے وقت میں ہم نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ اسے کس نے انجام دیا ہے۔‘‘
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اس برس 29 جنوری کو اسرائیلی سفارت خانے کے ایک ملازم کی رہائش گاہ کے پاس ایک کار دھماکہ ہوا تھا۔ اس میں بعض افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ سب سے پہلے اسرائیل نے اس دھماکے کے لیے ایران پر انگلی اٹھائی تھی اور پھر بعد میں بھارتی میڈیا میں بھی اس طرح کی خبریں آتی رہی ہیں کہ اس دھماکے کے پیچھے مقامی شیعہ گروپ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
ایرانی سفارت کار نبی زادے کا کہنا تھا،’’ یہ واقعہ بھارت میں پیش آيا۔ اگر بھارتی سکیورٹی فورسز ایسا کچھ کہتے تو ہم اپنی سطح پر اس کی چھان بین کر سکتے تھے ۔۔۔۔۔ یہ تو جھوٹ ہے اور وہ (اسرائیل) تو ہمیشہ ہی اس طرح کی چیزیں پھیلاتا رہتا ہے۔‘‘
’ایران سے خطرہ‘، اسرائیل نے میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا
01:06
ان سے جب ان الزامات سے متعلق بھارتی رد عمل کے بارے میں پوچھا گيا تو نبی زادے نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ نئی دہلی،’’ اس کی تفتیش کرنے کے بعد اپنا حتمی رد عمل ظاہر کرے گا۔ ابھی تک اس پر بھارت کا حتمی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس پر ان کا رد عمل بھی سامنے آئے۔‘‘
جنوری کے اواخر میں ہونے والے اس دھماکے میں اسرائيل سفارت خانے میں کام کرنے والی دفاعی اتاشی سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس کار بم دھماکے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران اور اس کی حلیف شیعہ ملیشیا حزب اللہ پر الزام عائد کیا تھا۔ ق
ایرانی سفارت کار کا کہنا تھا مذکورہ واقعے کی،’’ مکمل تحقیقات اور تفتیش کرنے کی کوششوں میں ہم بھارتی حکومت اور حکام کا احترام کرتے ہیں تاکہ اس طرح کی کارروائیاں انجام دینے والوں کا پتہ چل سکے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا،’’ یہ سفارت خانہ اس سلسلے میں کسی بھی بلاجواز الزام یا غیر ذمہ دارانہ تبصرے کی سختی سے تردید کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے پیچھے ایران بھارت کے تعلقات کے دشمنوں کے مذموم عزائم کار فرماں ہیں۔‘‘
ایران میں یہودیوں کی مختصر تاریخ
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
10 تصاویر1 | 10
ایران کے اس انکار کے باوجود منگل نو فروری کو بھارتی میڈیا میں سکیورٹی ایجنسیز کے حوالے یہ کئی ایسی خبریں شائع ہوئی ہیں جس میں کہا گيا ہے کہ دہلی دھماکے کے پیچھے،’’ ایرانی قدس فورس کا ہاتھ ہے تاہم یہ بم مقامی سطح پر ایک شیعہ گروپ نے کار میں نصب کیا تھا۔‘‘
ان خبروں کے مطابق دھماکے کے بعد دانستہ طور پر اسلامی شدت پسند تنظیم داعش سے وابستہ افراد سائیبر نشانات چھوڑے گئے تاکہ یہ تاثر مل سکے کہ اس کے پیچھے وہی شدت پسند تنظیم ہے، تاہم حقیقت میں اس کے پیچھے قدس فورس کا ہاتھ ہے۔ تاہم اس بارے میں ابھی تک بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی رد عمل یا با ضابطہ بیان سامنے نہیں آيا ہے۔
ان خبروں کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے اس سلسلے میں بھارت میں اسرائیلی سفارت کار رون ملکا کے نام تحریر کیا گيا ایک خط بھی دریافت کیا ہے جس میں انہیں دہشت گرد کے القاب سے مخاطب کیا گيا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنیسیاں اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ساتھ مل کر اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہیں۔
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔