نئی دہلی کے جدید سرکاری ہسپتال
19 اگست 2016اب موہن لال کے پڑوس میں ایک جدید ہسپتال کھل گیا ہے جہاں جدید تشخیصی سہولیات میسر ہیں۔ کمرے ایئر کنڈیشنر کی ہوا کے باعث ٹھنڈے ہیں، صفائی بھی خوب ہے اور خوش مزاج ڈاکٹر بھی موجود ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ہسپتال نئی دہلی کی حکومت کی جانب سے بنوائے گئے ہیں اور یہاں مریضوں کو مفت علاج کی سہولت میسر ہے۔
موہن لعل کو دمے کی بیماری کے باعث مستقل بنیادوں پر ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ اس کے پڑوس میں قائم کیے گئے نئے سرکاری ہسپتال اور نئی دہلی کی حکومت کی جانب سے غریب اور پسماندہ علاقوں کے قریب ایک سو ایسے ہسپتالوں کے قیام نے موہن لعل جیسے ہزارہا مریضوں کی زندگیاں آسان بنا دی ہیں۔
اس شہر کے کئی لاکھ غریب افراد کی طرح موہن لعل کو بھی سرکاری ہسپتالوں میں معمولی سی بیماری کے لیے بھی کئی گھنٹے انتظار کرنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ ان ہسپتالوں میں کئی مرتبہ ایک بستر پر دو دو مریضوں کو لٹایا جانا بھی معمول کی بات تھی۔ موہن لال نے ایسے ہی ایک سرکاری ہسپتال کے تجربے کو یاد کرتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’میرے علاقے کا سرکاری ہسپتال میرے گھر سے کافی دور تھا، مجھے کافی دیر تک چلنا پڑتا تھا اور ہسپتال پہنچ کر بدبودار اور گندے برآمدوں میں کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا تھا۔‘‘
موہن لال کے پڑوس کے اس نئے سرکاری ہسپتال میں خون کے ایک نمونے سے لگ بھگ 50 میڈیکل ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں۔ نئی دہلی جیسا شہر جہاں ذیابیطس، ڈینگی، ہیپیٹائٹس اور دیگر بیماریاں عام ہیں وہاں امراض کی جلد تشخیص ایک بہترین سہولت کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ ان میڈیکل ٹیسٹوں کے نتائج بہت جلد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور انہیں مریض اور ڈاکٹر کمپیوٹر اور اپنے اسمارٹ فونز کے ذریعے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ امراض کی جلد تشیخص جلد علاج فراہم کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔
موہن لال کے ٹیسٹ کے نتائج بھی آگئے ہیں۔ ڈاکٹر نے موہن لعل کے ٹیسٹ کا معائنہ کرنے کے بعد اسے کہا، ’’آپ کی رپورٹ کے نتائج اچھے نہیں آئے ہیں، آپ کو سگریٹ اورشراب نوشی چھوڑنا ہوگی۔ اس طبی معائنے کے بعد موہن لعل نے ہسپتال میں ہی نیوبیلائزر کے ذریعے اپنی سانس بحال کروائی اور پھر فارمیسی سے مفت دوائی بھی حاصل کی۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی حکومت نے اس سال کے بجٹ میں ہسپتالوں کے لیے 790 ملین ڈالر کی رقم مختص کیی تھی۔ سن 2014 میں بھارت نے مجموعی طور پر اپنے بجٹ میں صرف 1.4 فیصد صحت کے لیے مختص کیا تھا جو کہ افغانستان جیسے ملک سے بھی کم ہے جہاں سالانہ بجٹ کا 2.9 فیصد صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ اتنے کم وسائل کے باعث وہ بھارتی شہری جو پرائیویٹ ڈاکٹر کو لگ بھگ 15 امریکی ڈالر کی فیس دے سکتے ہیں وہ سرکاری ہسپتالوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت کی ساٹھ فیصد آبادی ادویات اور ہسپتالوں کا خرچہ خود اٹھاتی ہے۔
دہلی کے جنوب میں کامتا دیوی لوگوں کے گھروں میں کپڑے دھونے کا کام کرتی ہے۔ 50 سالہ کامتا کا کہنا ہے کہ نئی دہلی حکومت کی جانب سے میرے پڑوس میں بنایا گیا ہسپتال ایک اچھی سہولت ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری چار بیٹیاں ہیں جن میں سے کوئی نہ کوئی بیمار رہتی ہے۔ میں پرائیویٹ ڈاکٹروں کے پاس نہیں جا سکتی، یہ ہسپتال بلکل مفت ہے اور میرے گھر سے بھی بہت قریب ہے۔‘‘
ان ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں خوش آئند تبدیلیاں تو لا رہے ہیں لیکن کمزور انفراسٹرکچر کے باعث انہیں مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک ڈاکٹر الکا چوہدری نے اس بارے میں بتایا،’’ کبھی کبھار انٹرنیٹ انتہائی سست چلتا ہے یا پھر کبھی بجلی نہیں ہوتی اور کچھ مریض چاہتے ہیں کہ انہیں کاغذ پر ہی نسخہ لکھ کر دیا جائے کیوں کہ وہ کمپیوٹراور ٹیبلٹ استعمال کرنے کے عادی نہیں ہیں۔‘‘
ڈاکٹر الکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہسپتال ایک دوسرے کے ساتھ ڈیجیٹل نیٹ ورک کے ذریعے جڑے ہوئے نہیں ہیں اس لیے اگر کوئی مریض ایمرجنسی میں کسی اور ہسپتال میں داخل ہوتا ہے تو اس مریض کے بارے میں وہ ہسپتال ضروری معلومات فوری طور پر حاصل نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر الکا کا کہنا ہے، ’’ابھی اس نطام میں بہتری کی گنجائش ہے لیکن ہم نے ایک مثبت آغاز کر دیا ہے۔‘‘