یورپی یونین کے وزرائے زراعت مشترکہ زرعی پالیسی پر متفق ہو گئے ہیں۔ کئی برسوں کے مذاکراتی عمل سے یہ اتفاقِ رائے پیدا ہوا ہے۔
اشتہار
یورپی ملک لکسمبرگ میں بدھ اکیس اکتوبر کو یونین کی رکن ریاستوں کے درمیان نئی زرعی اصلاحاتی پالیسی کی ڈیل طے ہونے کا بتایا گیا۔ اس پالیسی کا سب سے اہم پہلو ماحول دوست ہونا خیال کیا گیا ہے۔ مشترکہ زرعی پالیسی (CAP) پر کئی برسوں سے مذاکراتی عمل جاری رہا۔ مسلسل مذاکرات سے تمام اعتراضات کو ہٹایا جا سکا۔ اسی طرح رکن ریاستوں کے خدشات کو بھی مناسب انداز میں رفع کیا گیا۔
ڈیل طے ہونے کا اعلان یورپی یونین کے وزرائے زراعت کے دو روزہ اجلاس کے بعد کیا گیا۔ اس اجلاس میں جرمنی کی نمائندگی وزیر زراعت ژولیا کلؤکنر کر رہی تھیں۔ اس پالیسی کے تحت اربوں یورو کسانوں کی زرعی سرگرمیوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ رکن ریاستوں کے بے شمار کسان یونین کی امداد پر ہی زرعی کاروبار جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔
جرمن وزیر زراعت ژولیا کلؤکنر کا ڈیل طے ہونے کے بعد کہنا تھا کہ کئی برسوں پر پھیلے مذاکراتی عمل سے ڈیل طے کرنے کے سنگ میل تک پہنچے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ڈیل سے کسانوں کو مسرت حاصل ہو گی اور یونین کی رکن ریستوں کے بے بہا لوگوں کے گھروں تک خوراک کھلیانوں سے پہنچتی رہے گی۔
چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ کی رکن نے زرعی ڈیل کے طے ہونے کی خبر ٹویٹر پر جاری کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈیل ماحول دوست اور یورپی ریاستوں کے زرعی انفراسٹرکچر کو یقینی طور پر مثبت سمت فراہم کرے گی۔ جرمن وزیر کا کہنا ہے کہ برلن حکومت کے سالانہ بجٹ میں سے قریب ایک بلین یورو صرف ماحولیاتی اقدامات پر صرف ہو گا۔ کلؤکنر کے مطابق حکومت خوراک کو محفوظ بنانے اور آمدن کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش بھی کرے گی۔
یورپی وزرائے زراعت کی طے پانے والی ڈیل کا باضابطہ اعلان یونین کے زرعی ہائی کمیشنر ژانوس ووژائیکووسکی نے کیا۔ انہوں نے ڈیل کے طے ہونے میں جرمن حکومت کی خصوصی معاونت کا شکریہ بھی ادا کیا۔ یہ امر اہم ہے کہ حالیہ مہینوں میں یورپی یونین کی ششماہی صدارت جرمنی کے ہاتھ میں۔ اس تناظر میں ووژائیکووسکی کا کہنا ہے کہ ڈیل مکمل ہونے میں برلن کی کوششیں واضح ہیں اور سابقہ ممالک کی کاوشوں کو منزل تک پہنچانے میں شاندار کردار ادا کیا ہے۔
مٹی کے بغیر کاشتکاری، مستقبل کے انسان کے لیے مفید ہے؟
زمین کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے کھیتوں میں کاشتکاری کے عمل کو مشکل سے مشکل تر کر دیا ہے۔ ابھی سے مزید خوراک کے حصول کی جدوجہد شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
خوراک کی عدم فراہمی اور زمین کے بغیر کاشتکاری
سن 2050 تک زمین کی آبادی پچاس ارب تک ہو سکتی ہے اور خوراک کی فراہمی ایک مشکل چیلنج ہو گا۔ زمین کے بعض حصے شدید بارشوں سے زیادہ نم زدہ ہیں جب کہ کچھ اور علاقے خشک تر ہو چکے ہیں۔ اس باعث کاشتکاری میں زیادہ اختراعی انداز اپنانا اہم ہو چکا ہے۔ ایسے میں زمین کی مٹی کے بغیر اختراعی کاشتکاری کو ایک حل خیال کیا گیا ہے۔ ریت یا پتھروں میں فصل بونے کو ہائیڈروپونکس کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
ہوا میں پودے اگانے کا سلسلہ
کم جگہ میں فصل کاشت کر کے زیادہ پیداوار حاصل کرنا بھی اختراعی کاشتکاری یا ہائیڈروپونکس میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اسٹار ٹریک فلم کا کوئی منظر محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت ہے کہ قدیمی دور میں انسان ایسا کرتا رہا ہے۔ ایزٹک تہذیب کے لوگ معلق کھیتوں میں کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ ہائیڈروپونکس کا ایک مطلب زمین کے بغیر کاشتکاری بھی لیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. De Melo Moreira
پیداوار میں بے پناہ اضافہ
زمینی مٹی کے بغیر کاشتکاری کسی حد تک مصنوعی انداز میں کی جاتی ہے اور اس کے لیے غذائیت کو اہمیت حاصل ہے۔ مختلف طریقوں میں غذائی محلول کا استعمال کر کے جڑیں پھیلانے کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں غذائی محلول کا اسپرے بھی شامل ہے۔ ایسی کاشتکاری میں مصنوعی انداز میں حرارت، روشنی اور دوسرے آلات کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پودا جلد تیار ہو جائے اور پیداوار بھی زیادہ دے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
مٹی کے بغیر کاشتکاری کا مؤثر انداز
اس طریقہٴ کاشتکاری یعنی ہائیڈروپونکس میں پانی کا انتہائی قلیل استعمال کیا جاتا ہے۔ روایتی کاشکاری سے دس فیصد کم پانی استعمال کر کے زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر خشم موسم میں کارگر ہے لیکن غذائیت یقینی طور پر فصل میں زیادہ موجود ہے۔ اسی طرح کیمیکل کھاد کا استعمال بھی کم ہوتا ہے۔ کیڑے مار ادویات نہ ہونے کے برابر استعمال کی جاتی ہیں کیونکہ زمینی مٹی موجود نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
کاشتکاری کا عمودی انداز
ہائیڈروپونکس میں پودے عمودی طور پر لگائے جاتے ہیں تا کہ وہ اوپر کی جانب بڑھ سکیں۔ یہ پودے عموماً طشتریوں میں لگائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر کچھ فاصلے پر رکھی جاتی ہیں۔ اس انداز میں پودے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور کم جگہ گھیرتے ہیں۔ یہ اندازِ کاشتکاری مؤثر گردانا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ Photoshot
بغیر مٹی کے کاشتکاری کا منفی پہلو
ہائیڈروپونکس ایک طرح سے پیچیدہ کاشتکاری کا انداز قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس میں توانائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور یہ مہنگا ہے۔ پودوں کو غذائی مواد درکار ہے اور آلات کی بھی ضرورت ہے۔ بجلی کی فراہمی منقطع ہونے پر ساری فصل ضائع ہو سکتی ہے۔ مصنوعی انداز میں حرارت اور روشنی کی فراہمی ذاتی خرچ پر ہے جبکہ روایتی کاشتکاری میں حرارت اور روشنی کا ذریعہ سورج ہے، جو مفت ہے۔
تصویر: Imago/View Stock
ہائیڈروپونکس کو عروج حاصل ہو سکتا ہے
نظریاتی طور پر بغیر مٹی کے کسی بھی فصل کو اگایا جا سکتا ہے، جیسا کہ کھیرے، ٹماٹر، سبز سلاد، مرچ یا دوسری جڑی بوٹیاں لیکن سبھی کے لیے ایک خاص تکنیک کی ضرورت ہے۔ بظاہر بغیر مٹی کے کاشتکاری ابھی بہت مقبول نہیں ہے لیکن یہ مستقبل کے چیلنج کا سامنا کر سکتی ہے۔ سن 2016 میں اس انداز کی کاشتکاری یا ہائیڈروپونکس کا مالیتی حجم اکیس بلین ڈالر سے زائد تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
7 تصاویر1 | 7
اس ڈیل میں طے پایا ہے کہ رکن ریاستوں کو مقامی زرعی معاملات حل کرنے میں آزادی ہو گی۔ ان میں خاص طور پر قدرتی اور زمین کے ماحولیاتی مسائل بشمول تحفظ کے علاوہ خوراک کے پائیدار اور بہتر ہونے کو یقینی بنانا شامل ہے۔
نئی زرعی پالیسی یورپی یونین کی رکن ریستوں میں سن 2023 میں نافذ ہو جائے گی۔ اس دوران کے دو سالوں میں مشترکہ زرعی پالیسی کے حوالے سے ریاستیں اپنا مطعالیاتی کام جاری رکھیں گی۔