امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ناسا پیر کے روز ایک نیا سیٹلائٹ خلا میں بھیج رہا ہے، جو نظام شمسی کے قریب موجود ستاروں کے آس پاس گردش کرنے والے سیارے تلاش کرے گا، جن میں وہ سیارے بھی شامل ہیں، جہاں زندگی ممکن ہے۔
اشتہار
ناسا کی ٹرانزٹنگ ایکسپو پلینٹ سروے ٹی ای ایس ایس نامی یہ سیٹلائٹ پیر کے روز فلوریڈا کے کیپ کانیورل اڈے سے روانہ کی جا رہی ہے۔ اس سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے لیے مقامی وقت چھ بج کر بتیس منٹ یعنی عالمی وقت کے مطابق رات دس بج کر بتیس منٹ طے کیا گیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے ماہرین کے مطابق اسی فیصد امکانات ہیں کہ یہ مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے لیے موسم سازگار ہو گا۔
پلوٹو کی انتہائی اعلیٰ کوالٹی کی تصویریں
ناسا کا تحقیقاتی مشن ’نیو ہورائزن‘ نو برس تک سفر کرتا رہا اور پھر کہیں جا کر نظام شمسی کے آخری سرے پر پلوٹو تک پہنچا۔ اس بونے سیارے کی انتہائی عمدہ تصاویر اب جاری کر دی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JHUAPL/SwRI
اتنی اچھی تصاویر جو پہلے کبھی نہ دیکھی گئیں
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ ان تصاویر میں پلوٹو کی سطح کو انتہائی قربت سے دیکھا گیا ہے۔ پہاڑی اور برفیلے علاقوں سے مزین اس چھوٹا سے سیارے کی تصاویر پلوٹو کی ایک غیرمعمولی شکل دکھا رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/NASA/JHUAPL/SwRI
انتہائی اچھی تصویریں
نیو ہورائزن پلوٹو کے قریب سے گزرا، تو اس پر نصب دوربین ’لوری‘ نے ہر تین سیکنڈ کے وقفے سے اس بونے سیارے کی تصاویر کھینچیں۔ اس دوربین کے کیمرے کی شٹر اسپیڈ کا پورا فائدہ اٹھایا گیا، اور پلوٹو کی سطح کا باریکی سے مطالعہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Nasa/Jhuapl/Swri
ایک بڑا فرق
اس تصویر میں پلوٹو کا موسم گرما کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ خلائی جہاز ’نیو ہورائزن‘ کی نگاہ سے پلوٹو کی یہ تصاویر اس بونے سیارے کی اب تک کی تمام تصاویر سے بہت بہتر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JHUAPL
دسترس میں
پلوٹو کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک وقت ايسا بھی تھا، جب یہ خلائی جہاز اس بونے سیارے سے صرف 350 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ اس تصویر میں پلوٹو کا سب سے بڑا چاند چارون بھی دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: JHUAPL/SwRI
ایک سیارہ جو اب سیارہ نہیں
سن 2006ء میں نیو ہورائزن کی روانگی کے چھ ماہ بعد بین الاقوامی فلکیاتی یونین (IAU) نے پلوٹو کی بابت ایک اہم فیصلہ کیا۔ اس کا مدار سیاروں کی طرح گول نہیں، اس لیے اسے سیاروں کی کیٹیگری سے نکال کر ’بونے سیاروں‘ کی کیٹیگری میں ڈال دیا گیا۔ پلوٹو جس جگہ پر ہے، وہاں اس طرح کے کئی آبجیکٹس دیکھے جا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Saurer
حجم کا تقابل
اس تصویر میں سورج، عطارہ، زہرہ، زمین اور مریخ دکھائی دے رہی ہیں۔ اس کے بعد نظام شمسی کے بڑے سیارے مشتری، زحل ، یورینس اور نیپچون ہیں۔ ان کے آگے یہ چھوٹا سا نکتہ پلوٹو ہے، جس کی قطر صرف دو ہزار تین سو ستر کلومیٹر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پلوٹو کے تمام چاند گول نہیں
نیوہورائزن نے اس بونے سیارے کے چاندوں کو بھی دیکھا۔ اس کے تمام چاند گول نہیں۔ ڈیٹا کے مطابق پلوٹو کا ایک چاند سٹیکس آٹھ سے اٹھائیس کلومیٹر قطر کا ہے۔ اس خلائی جہاز سے چارون، نِکس اور ہائیڈرا کی تصاویر بھی حاصل ہوئیں۔
تصویر: NASA/ESA/A. Feild (STScI)
چاند کا چاند بھی
پلوٹو کے ایک چاند نِکس کے بارے میں اس تحقیقاتی مشن سے قبل زیادہ معلومات دستیاب نہ تھیں۔ نیو ہورائزن سے یہ معلوم ہوا کہ یہ چاند پلوٹو کے گرد گول مدار میں گردش نہیں کرتا، بلکہ پلوٹو کے سب سے بڑے چاند چارون کی تجاذبی کشش کی وجہ سے ایک انوکھا سا مدار بناتا ہے، یعنی نِکس پلوٹو کے چاند کا چاند بھی ہے۔
نیوہورائزن پر تین آپٹیکل آلات تھے، جن کا کام پلوٹو کے مختلف مقامات کی تصاویر ریکارڈ کرنا تھا، جب کہ دو پلازما اسپیٹرو میٹر تھے، جو اس بونے سیارے پر سولر وِنڈز (شمسی شعاعیں) کے ذرات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ گرد اور ریڈیو میٹر بھی نصب تھے۔
تصویر: JHUAPL/SwRI
آپٹیکل دوربین
ٹیکنیشنز نے طویل فاصلے سے تصاویر ’لوری‘ نامی دوربین نصب کی تھی۔ اسی سے ہمیں پلوٹو کی انتہائی عمدہ تصاویر حاصل ہوئی ہیں۔ ڈیجیٹل کیمرے سے سیارے پر موجود تابکاری کو طول موج سے ماپا گیا۔ اس خلائی جہاز پر ساڑھے آٹھ کلوگرام سے زائد وزن کا یہ اعلیٰ دیگر آلات کے مقابلے میں بھاری ترین تھا۔
تصویر: NASA
2006 سے سفر
نیو ہورائزن نے 19 جنوری 2006 کو پلوٹو کے لیے اپنا سفر شروع کیا۔ کیپ کانیورل سے اٹلس فائیو راکٹ کے ذریعے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے اس خلائی جہاز نے زمین اور سورج کے تجاذب سے نکلنے کے لیے 16.26 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کیا۔ کسی خلائی جہاز کی اب تک کی یہ تیز ترین رفتار تھی۔
تصویر: NASA
سورج سے دور بہت دور
اس خلائی جہاز کی منزل نظام شمسی کا آخری سرا تھا۔ اس کے راستے میں مشتری اور ایک دم دار ستارہ آيا اور نو سال، پانچ ماہ اور 24 دن تک مجموعی طور پر 2.3 ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اس بونے سیارے تک پہنچا۔
اس سیٹلائٹ کے ذریعے نظام شمسی کے گردونواح میں واقع قریب دو لاکھ چمک دار ستاروں کے گرد گردش کرنے والے سیاروں کا سراغ لگایا جائے گا۔ ناسا کا کہنا ہے کہ اس سٹیلائٹ کے ذریعے ان سیاروں کی کھوج لگائی جائے گی، جو زمین کی طرح اپنے اپنے میزبان سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سیٹلائٹ ان سیاروں کا میزبان ستارے سے فاصلہ، حجم اور دیگر اہم معلومات بھی فراہم کرے گی، جس سے ان سیاروں پر زندگی کے امکانات سے متعلق آگہی ملے گی۔
بتایا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے یہ سیٹلائٹ پہلے سے خلا میں موجود کیپلر دوربین کی طرز پر گردش کرتے ہوئے جب کوئی سیارہ اپنے میزبان ستارے اور سیٹلائٹ کے درمیان سے گزرے گا اور میزبان ستارے کی روشنی کے طولِ موج میں فرق پیدا ہو گا، تو اس سے اس سیارے کی موجودگی اور طول موج میں پڑنے والے فرق سے سیارے کے حجم اور ستارے سے فاصلے جیسی معلومات مل پائیں گی۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ اس مشن کے ذریعے ہزاروں سیاروں کا سراغ لگایا جا سکے گا، جن میں سے قریب تین سو ایسے ہیں، جو زمین یا زمین کے حکم کے دوگنے کے برابر ہیں۔ اس سیٹلائٹ کے ذریعے ان سیاروں میں سے ان سیاروں کا انتخاب کیا جائے گا، جہاں زندگی ممکن ہو گی یا جو زندگی کے لیے موافق حالات کے حامل ہوں گے۔
مریخ پر کمند
زمین کے ہمسایہ سیارے مریخ پر زندگی کے آثار کی تلاش میں بھارت نے اپنا خلائی مشن روانہ کر دیا ہے۔ ’منگلیان‘ نامی خلائی شٹل 300 دنوں کے سفر کے بعد مریخ کے مدار میں پہنچے گی اور اُس کے گرد چکر لگاتے ہوئے ڈیٹا حاصل کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راکٹ کی کامیاب پرواز
سرخ سیارے مریخ کے لیے پہلا بھارتی مشن منگل پانچ نومبر کو مقامی وقت کے مطابق سہ پہر دو بج کر اڑتیس منٹ پر خلاء میں روانہ کر دیا گیا۔ ’منگلیان‘ (ہندی زبان میں مریخ کا مسافر) نامی خلائی شٹل کو جنوبی ریاست آندھرا پردیش سے ایک راکٹ کی مدد سے زمین کے مدار میں پہنچایا گیا۔ اس مشن کی کامیابی کی صورت میں بھارت بر اعظم ایشیا کا پہلا ملک ہو گا، جو خلائی شٹل کے ساتھ مریخ پر پہنچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مریخ کے لیے پہلی بھارتی خلائی شٹل
بھارتی خلائی مشن کے منصوبے کو خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم ISRO کے بنگلور میں و اقع ہیڈ کوارٹر میں پایہء تکمیل کو پہنچایا گیا۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے دو سال تک سولہ ہزار کارکن مصروفِ کار رہے۔ 1.35 ٹن وزنی ’منگلیان‘ کا سائز ایک چھوٹی کار جتنا ہے۔ پروگرام کے مطابق اس شٹل کو مریخ تک پہنچنے میں تین سو روز لگیں گے۔
تصویر: imago/Xinhua
مریخ کے گرد ایک چکر
’منگلیان‘ محض ایک آربیٹر ہے یعنی اس کا کام محض اس سیارے کے گرد چکر لگانا اور پیمائشیں لینا ہے۔ اس شٹل کو مریخ کی سطح پر اُتارنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ISRO کا ہدف مریخ پر میتھین کا سراغ لگانا ہے۔ میتیھین کی موجودگی مریخ پر زندگی کی موجودگی کا پتہ دے گی کیونکہ ہماری زمین پر بھی انتہائی چھوٹے چھوٹے نامیاتی اجسام ہی گیس پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انتہائی جدید خلائی مرکز
یہ تصویر بنگلور میں ISRO کے مرکز کی ہے۔ مریخ کے اردگرد چکر لگانے کا منصوبہ ایسا واحد بڑا منصوبہ نہیں ہے، جسے بھارت میں عملی شکل دی گئی ہے۔ پانچ سال پہلے ISRO نے چاند کی جانب بھی ایک شٹل روانہ کی تھی۔ یہ شٹل پہلی ہی کوشش میں چاند تک پہنچ گئی تھی اور اس خلائی تنظیم کے لیے شہرت کا باعث بنی تھی تاہم ’چندریان‘ کے ساتھ رابطہ اگست 2009ء میں منقطع ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
امید و بیم کی کیفیت
یہ ٹیکنیشن خلائی اسٹیشن سری ہاری کوٹا میں شٹل کے ڈیٹا کو احتیاط سے جانچ رہا ہے۔ اب تک مریخ کے تمام مشنوں میں سے نصف سے زائد ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں، جن میں 2011ء کے چینی منصوبے کے ساتھ ساتھ 2003ء کا جاپانی منصوبہ بھی شامل ہیں۔ اب تک صرف امریکا، سابق سوویت یونین اور یورپ ہی مریخ کی جانب شٹلز روانہ کر سکے ہیں تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان ممالک کے پاس بجٹ بھی زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
ایک نسبتاً سستا خلائی منصوبہ
اس بھارتی منصوبے پر 4.5 ارب روپے لاگت آئی ہے اور اس طرح یہ ایک مسافر بردار بوئنگ طیارے کے مقابلے میں بھی سستا ہے۔ امریکا اپنی مریخ شٹل "Maven" اٹھارہ نومبر کو روانہ کرنے والا ہے اور 455 ملین ڈالر یعنی چھ گنا زیادہ رقم خرچ کرے گا۔ بھارتی مریخ مشن تنقید کی زد میں ہے کیونکہ ایک ایسے ملک میں، جہاں دنیا کے تمام غریبوں کی ایک تہائی تعداد بستی ہے، بہت سے شہری اتنے مہنگے خلائی منصوبوں کے خلاف ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP
ISRO کے سربراہ کا جواب
اس منصوبے پر ہونے والی تنقید کے جواب میں خلائی تحقیق کی بھارتی تنظیم کے سربراہ کے رادھا کرشنن کہتے ہیں کہ یہ تنظیم ایسے مصنوعی سیارے بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، جن کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی ہے۔ ISRO کو امید ہے کہ ’منگلیان‘ مشن کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل ہو گی اور آمدنی کے نئے ذرائع پیدا ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP
دیو ہیکل راکٹ
’منگلیان‘ اپنی پرواز شروع کرنے کے 45 منٹ بعد ہی زمینی مدار میں پہنچ گیا تاہم 350 ٹن وزنی راکٹ کو زمینی مدار سے نکل کر مریخ کی جانب روانہ ہونے میں کچھ وقت لگ جائے گا۔ یہ راکٹ ایک مہینے تک زمین کے گرد چکر لگاتا رہے گا، تب جا کر اُس کی رفتار میں اتنی قوت آ سکے گی کہ وہ زمین کی کششِ ثقل کو توڑ کر مریخ کی جانب اپنا سفر شروع کر سکے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سیٹلائٹ دو سال تک آسمان کو 26 سیکٹرز میں تقسیم کر کے ہر سیکٹر پر 27 دن تک ’گھورے‘ گا، جس دوران اس میں موجود انتہائی طاقت ور کیمرے تصاویر حاصل کریں گے۔
اس سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی معلومات کو اگلے برس عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔