نئی شاہراہیں، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ’آباد کاری کی کوشش‘
7 دسمبر 2020
اسرائیلی باشندے آئندہ کچھ برسوں میں یروشلم اور تل ابیب کے مابین سفر کے لیے ایسی شاہراہوں سے سفر کرنے کے قابل ہو جائیں گے، جو ویسٹ بینک میں واقع مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو کاٹ کر بنائی جائیں گی۔
اشتہار
اسرائیلی حکام کا منصوبہ ہے کہ آئندہ کچھ برسوں میں فلسطینی مقبوضہ علاقوں کو کاٹ کر ایسے انڈر پاسز اور اوورہیڈ بریجز بنائے جائیں گے، جن کی مدد سے یروشلم اور تل ابیب کے مابین سفر میں آسانی ہو جائے گی۔ تاہم انسانی حقوق کے گروپوں نے ان نئی تعمیرات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان منصوبہ جات کے شروع ہونے سے نئی امریکی انتظامیہ بھی یہودی آباد کاری کو روکنے میں ناکام ہو سکتی ہے۔
اس نئے منصوبے پر تحقیق کرنے والے اسرائیلی کارکن یہودہ شاؤل نے کہا ہے کہ دراصل یہ اسرائیل کی طرف سے مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ٹینل کے لیے تعمیراتی کام جاری ہے اور جلد ہی یروشلم کے جنوب میں واقع معالی ادومیم نامی علاقے کے یہودی آباد کاروں کو مزید علاقوں میں پھیلنے کی آزادی مل جائے گی، اور یہ کام اتنے غیر محسوس طریقے سے ہو گا کہ اسرائیلی حکام کو ایک ٹریفک سگنل بھی نہیں ہٹانا پڑے گا۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
ان نئے منصوبوں کو پایہ تکیمل تک پہنچانے کی خاطر بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کی کوشش ہے کہ کسی امن ڈیل کی صورت میں بھی وہ زیادہ تر مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اپنی دسترس میں ہی رکھے۔
شاؤل کے مطابق ان نئے انفراسٹریکچر منصوبہ جات کی صورت میں یہودی آباد کاری کے لیے ویسٹ بینک میں پچاس ہزار جبکہ مشرقی یروشلم میں چھ ہزار نئے مکانات کی تعمیر ممکن ہو جائے گی۔
ان نئی شاہراہوں پر فلسطینی بھی سفر کر سکیں گے تاہم ان کی نقل و حرکت محدود ہو گی کیونکہ اسرائیل کے زیر انتظام مشرقی یروشلم میں داخل ہونے کے لیے انہیں خصوصی پرمٹ کی ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کئی ماہ کی تحقیق کے بعد ان اعدادوشمار کو میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
اسرائیل نے سن 1967 کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور ویسٹ بینک پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سے اب تک اسرائیلی حکام ان مقبوضہ علاقوں میں یہودی کاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان نئی بستیوں میں سات لاکھ یہودی آباد ہو چکے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ مستقبل کی آزاد ریاست میں ان دونوں علاقوں کو اپنا حصہ بنانا چاہتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں یہودی آباد کاری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور امن عمل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یورپ سمیت متعدد عالمی طاقتیں ان مطالبات میں فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔
ع ب / ک م / خبر رساں ادارے
جنہيں قسمت نے ہمسايہ بنا ديا: ايک مسلمان، ايک يہودی