1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی ویزہ پالیسی: جاپان میں محنت کشوں کے لیے دروازے کھل گئے

امتیاز احمد جولیان ریال، ٹوکیو
11 اپریل 2019

جاپان میں افرادی قوت کی کمی کے باعث غیرملکی محنت کشوں کے لیے نئی ویزہ پالیسی متعارف کرا دی گئی ہے۔ لاکھوں ’بلیو کالر‘ ملازمین کی تلاش میں یہ نئے قوانین یکم اپریل سے نافذ العمل ہو چکے ہیں۔

Japan Tokio Flüchtlings-Frau arbeitet in Nagelstudio
تصویر: Getty Images/AFP/T. Kitamura

جاپان کی تاجر برادری نے اس حکومتی فیصلے اور ویزے کے قواعد و ضوابط میں نرمی کا خیرمقدم  کیا ہے۔ دوسری جانب کئی جاپانی شہریوں نے اسے حکومتی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح ملکی شہریوں کی ملازمتوں، سماجی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

جاپان کی طرف سے متعارف کرائی گئی نئی ویزہ پالیسی کے دو ورژن ہیں اور دونوں میں ہی درخواست گزاروں کے لیے کسی جاپانی کمپنی کا سپانسر لیٹر حاصل کرنا ضروری ہے۔ ممکنہ ملازمین کو متعدد لازمی امتحانات بھی پاس کرنا ہوں، جن میں جاپانی زبان کا امتحان بھی شامل ہے۔

پہلی قسم کے ویزے ان غیرملکیوں کو فراہم کیے جائیں گے، جو فوڈ سروسز، صفائی، تعمیرات، زراعت، ماہی گیری، گاڑیوں کی مرمت اور صنعتی مشینری آپریشن کے شعبوں میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ویزے محدود مہارت رکھنے والے غیرملکیوں کے لیے ہوں گے۔ پہلی قسم کے ویزوں کی مدت پانچ سال تک ہو گی لیکن ایسے ویزوں کی تجدید بھی ممکن ہو گی۔ ایسے تمام غیرملکی ملازمین اپنے اہلخانہ کو جاپان بلانے کے اہل نہیں ہوں گے۔

تاہم جن ہنرمند افراد کو دوسری قسم کا ویزہ دیا جائے گا، وہ مخصوص معیارات پر پورا اترنے کے بعد اپنے اہلخانہ کو جاپان بلا سکیں گے۔ اسی وجہ سے کئی جاپانی شہری وزیراعظم شینزو آبے کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان ناقدین کے مطابق اس طرح جاپان میں تارکین وطن کے لیے مستقل رہائش کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔

فوری مدد کی ضرورت ہے

صنعتی ماہرین کے مطابق جاپان کو فوری طور پر ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ پہلے برس جاپانی حکومت 47 ہزار سے زائد ویزے جاری کرنا چاہتی ہے جبکہ آئندہ پانچ برسوں میں ان ویزوں کی تعداد بڑھا کر تین لاکھ پینتالیس ہزار تک کر دی جائے گی۔ ماہرین کے مطابق ان اقدامات کے باوجود بھی مقامی صنعت کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ماہر اقتصادیات مارٹن شُولس کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’حکومتی اور صنعتی اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ لیبر مارکیٹ مکمل خالی ہے۔‘‘تصویر: Getty Images/AFP/B. Mehri

ٹوکیو میں فوجیتسو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سینئر ماہر اقتصادیات مارٹن شُولس کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’حکومتی اور صنعتی اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ لیبر مارکیٹ مکمل خالی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’سن 2020ء میں ٹوکیو اولمپک گیمز سے پہلے تعمیراتی شعبے میں تیزی آئی ہے لیکن کمپنیاں مایوس ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسی تعمیراتی کمپنیوں کو مناسب ملازمین ہی نہیں مل رہے اور وہ نئے منصوبے شروع کرنے سے انکار کر رہی ہیں۔‘‘

مارٹن شُولس کے مطابق کئی نئی کمپنیوں کو اپنے لیے دفاتر کی کمی کا سامنا ہے اور انہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ دو برسوں تک نئے دفاتر کو بھول جائیں، ’’تقریبا ہر شعبے میں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں تک کے دیہی معیشت اور زراعت کا بھی یہی حال ہے۔‘‘

جاپان میں افرادی قوت کا مسئلہ چوبیس گھنٹے کھلنے والے اسٹوروں کو دیکھ کر مزید واضح ہو جاتا ہے۔ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے ایسے اسٹورز کے مالکان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ فرنچائز معاہدوں کے تحت انہیں لازمی طور پر چوبیس گھنٹے سروس فراہم کرنا ہوتی ہے۔

حالیہ چند برسوں میں روزگاری کی منڈی میں جاپانی خواتین اور عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ ان کی اشد ضرورت ہے۔ ریٹائرمنٹ لینے والے بہت سے افراد کو دوبارہ ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں۔ مارٹن شُولس کے مطابق ایسے اقدامات کے باجود بھی بہت سی ملازمتیں خالی پڑی ہیں۔

نئی ویزہ پالیسی کے نافذالعمل ہونے کے فوراﹰ بعد جاپان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر عہدیدار نوبوشی ایاما کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ حکومتی اقدام ملکی معیشت کے لیے انتہائی مددگار ثابت ہوگا، ’’ہم نئے سسٹم کا خیرمقدم کرتے ہیں کیوں کہ یہ افرادی قوت کی کمی کا مسئلہ حل کرے گا۔‘‘

دوسری جانب برسر اقتدار جماعت کے اندر بھی اس نئی ویزہ پالیسی کو مخالفت پائی جاتی ہے اور لیبر منسٹری کی عمارت کے سامنے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔ مارٹن شُولس کے مطابق، ’’برسر اقتدار لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر بھی مخالفت ہے۔ ایسے خدشات ہیں کہ ہزاروں غیرملکی ملازمین کا مقامی کمیونٹی پر اثر پڑے گا۔ لیکن جاپان کے پاس اپنے دروازے غیرملکیوں کے لیے کھولنے کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔‘‘

مبصرین کے مطابق جاپان کو زیادہ آٹومیشن اور روبوٹس کی مدد کے ساتھ بھی لوگوں کی کمی کا سامنا ہے۔ اس نئی پیش رفت کو جاپان کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بھی قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ تارکین وطن کا معاشرے میں انضمام کیسے کرے گا اور کس حد تک اپنے اس منصوبے میں کامیاب رہتا ہے؟

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں