بی اے ایم ایف کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے رجسٹریشن کے عمل میں ماضی کی غلطیاں دہرائے جانے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جدید ٹیکنالوجی انسانوں کا نعم العبدل نہیں ہو سکتی۔
اشتہار
’مزید فرانکو اے نہیں!‘ یہ ہے موٹو جرمن ادارے ’فیڈرل آفس فار مائیگریشن اینڈ ریفیوجیز‘ BAMF کا۔ جرمن فوجی فرانکو اے نے گزشتہ برس خود کو بطور مہاجر رجسٹر کرا لیا تھا۔ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل اس فوجی کی اس کامیابی کو بی اے ایم ایف کی ایک بڑی غلطی قرار دیا گیا تھا۔
اس پیشرفت کے بعد اس وفاقی جرمن ادارے نے مہاجرین اور تارکین وطن کی رجسٹریشن کے عمل میں اصلاحات کا عمل شروع کر دیا تھا۔ اس میں جدید ٹیکلنالوجی کو متعارف کرانا دراصل انہیں اصلاحات کے سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔
تربیت کے بعد مہاجرین کی ملک بدری ۔ جرمن کمپنیوں کی مشکل
03:48
جرمن حکام نے گزشتہ ہفتے ہی مہاجرین اور تارکین وطن کی شناخت کی خاطر یہ جدید نظام متعارف کرایا تھا۔
’فیڈرل آفس فار مائیگریشن اینڈ ریفیوجیز‘ کا کہنا ہے کہ اس نظام کی مدد سے رجسٹریشن کے عمل میں بہتری پیدا ہو گی۔
یہ ٹیکنالوجی زبان کے انداز کا تجزیہ کرنے کی اہل ہے، جس سے لوگوں کے اصل ملک اور علاقے کا تعین ممکن ہو سکے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی جدید ٹیکنالوجی ہے۔
اسی طرح ایک ایسا نیا سافٹ ویئر بھی متعارف کرایا گیا ہے، جو پناہ کے متلاشی افراد کی بائیو میٹرک تصاویر لے گا۔
ماضی میں پناہ کے متلاشی کچھ افراد خود کو کئی مقامات پر رجسٹر کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
ساتھ ہی اس نطام کے تحت چلنے والے ایک کمپیوٹر پروگرام کی مدد سے عربی زبان کے ناموں کو ایک منظم انداز میں رومن لیٹرز میں لکھا اور پڑھا جا سکے گا۔
’فیڈرل آفس فار مائیگریشن اینڈ ریفیوجیز‘ نے بتایا ہے کہ جرمن صوبے سیکسنی کے بامبرگ سینٹر میں اس نئے نظام کا کامیاب ٹیسٹ کیا گیا ہے اور اس نظام کو جلد ہی ملک بھر میں بھی متعارف کرا دیا جائے گا۔ سیکسنی کے وزیر داخلہ مارکوس اولبرگ نے بھی اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ جرمنی کے تمام سولہ صوبوں میں جلد ہی اس نظام کو متعارف کرا دیا جائے گا۔
بی اے ایم ایف کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر جلد فیصلوں کے ساتھ ایسے افراد کی اپنے اپنے ممالک واپسی کے عمل میں بھی مدد کی جائے گی۔ حکام کو یقین ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی کے باعث پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کی چھان بین اور ان پر فیصلے سنانے کے عمل میں بھی تیزی آئے گی۔
جرمنی ميں سياسی پناہ کی درخواستوں کے تازہ اعداد و شمار
جرمن ادارہ برائے ہجرت و مہاجرين (بی اے ایم ایف) نے اس حوالے سے اپنی ايک رپورٹ ميں بتايا ہے کہ مارچ ميں سياسی پناہ کی 58 ہزار تک درخواستيں جمع کرائی گئيں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Tongas
شامی، عراقی اور افغان پناہ گزين سب سے زيادہ
سال رواں کے پہلے تين ماہ کے دوران جرمنی ميں جمع کرائی جانے والی سياسی پناہ کی درخواستوں کی مجموعی تعداد 176,465 رہی۔ ان ميں شامی پناہ گزينوں نے سب سے زيادہ 89 ہزار درخواستيں جمع کرائيں۔ تعداد کے اعتبار سے عراقی باشندے 25,721 درخواستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ جرمنی میں پناہ کی درخواستيں جمع کرانے ميں افغان شہری 20 ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تيسرے نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hollemann
شامی پناہ گزين
فروری 2016ء ميں شامی تارکين وطن کی جانب سے مجموعی طور پر سياسی پناہ کی ساڑھے 33 ہزار درخواستيں جمع کرائی گئيں جب کہ مارچ ميں يہ تعداد 27,878 رہی۔ اس حساب سے ايک ماہ ميں شامی شہريوں کی جانب سے جمع کرائی جانے والی درخواستوں کی تعداد ميں 16.8 فيصد کی کمی دیکھی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
عراقی مہاجرين بھی پناہ کے متلاشی
اسی طرح اس سال فروری ميں عراقی تارکين وطن کی جانب سے پناہ کی کُل دس ہزار درخواستيں جمع کرائی گئيں جب کہ مارچ ميں يہ تعداد کم ہونے کے بعد 8,982 رہی۔ ايک ماہ ميں عراقی شہريوں کی جانب سے جمع کرائی جانے والی درخواستوں کی تعداد ميں 10.2 فيصد کی کمی نوٹ کی گئی ہے۔
تصویر: Jodi Hilton
’ہميں بھی برابر حقوق دو‘ : افغان پناہ گزينوں کی پکار
سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرانے کے معاملے ميں تيسرے نمبر پر افغان شہری رہے۔ فروری 2016ء ميں 7,268 جب کہ مارچ کے مہینے میں چار فیصد اضافے کے ساتھ 7,567 افغان تارکين وطن نے جرمنی میں پناہ کی درخواستيں جمع کرائيں۔
تصویر: DW/A. Jawad
ہزاروں درخواست دہندگان کی شہريت واضح نہيں
سال رواں کے پہلے تين ماہ ميں مجموعی طور پر 8,382 درخواستيں ان افراد کی جانب سے جمع کرائی گئيں، جن کی شہريت واضح نہيں۔ ايسے افراد نے فروری ميں 3,358 درخواستيں جمع کرائيں جبکہ مارچ ميں ان کی تعداد 44.3 فيصد کی نماياں کمی کے ساتھ 1,869 رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
البانيا کے تارکين بھی متلاشی، مگر کيوں؟
2016ء کی پہلی سہ ماہی ميں ايرانی تارکين وطن نے مجموعی طور پر پناہ کی چوالیس سو سے زائد درخواستيں جمع کرائيں اور البانيا کے مہاجرين نے 3,309 درخواستيں جمع کرائيں۔ فروری ميں ايرانی درخواست دہندگان کی تعداد 1,626 تھی جو مارچ ميں بڑھ کر 1,693 ہو گئی۔ اسی طرح البانيا کے درخواست دہنگان کی تعداد فروری ميں 1,210 اور مارچ ميں 825 ريکارڈ کی گئی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
پاکستانيوں کی درخواستوں ميں اضافہ
جرمنی ميں سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرانے کے حوالے سے پاکستانی ساتويں نمبر پر ہيں۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی ميں قریب تین ہزار پاکستانيوں نے درخواستيں ديں۔ فروری کے مہینے میں پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے پناہ کی نو سو سے کچھ زائد درخواستیں جرمن حکام کو موصول ہوئیں۔ جب کہ مارچ ميں يہ تعداد 27.8 فيصد اضافے کے ساتھ 1,171 ہو گئی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
افريقی ملکوں کے تارکين وطن کی درخواستوں ميں کمی
رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران سياسی پناہ کی چوبیس سو درخواستوں کے ساتھ اريٹريا کے شہری آٹھويں نمبر پر رہے جب کہ نويں پوزيشن پر وہ افراد تھے، جو کسی بھی ملک کی شہريت سے محروم ہيں۔ ايسے افراد کی جانب سے اس عرصے ميں 1,617 درخواستيں جمع کرائی گئيں۔ سربيا کی تارکين وطن نے جرمنی ميں پناہ کے ليے 1,487 درخواستيں ديں۔