نئی پاک بھارت جنگ کا حالیہ خطرہ ’امریکی مداخلت سے ٹلا‘
17 مارچ 2019
پاکستان اور بھارت نے آپس کی حالیہ شدید کشیدگی کے دوران ایک دوسرے کو میزائل حملوں کی دھمکیاں بھی دے دی تھیں۔ ان دونوں حریف ہمسایہ جوہری طاقتوں کے مابین ایک نئی جنگ کا بھرپور خطرہ امریکا کی مداخلت کے بعد ٹلا تھا۔
اشتہار
اتوار سترہ مارچ کو خبر رساں ادارے روئٹرز کی اسلام آباد او نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے مابین سیاسی اور عسکری تناؤ اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ یہ دونوں ممالک ایک نئی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک دوسرے کو میزائل حملوں کی دھمکیاں بھی دے دی تھیں۔
لیکن اس خطرے کے بروقت ٹل جانے میں دیگر ممالک کے نمائندوں کے علاوہ اعلیٰ امریکی حکام نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا، جن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن بھی شامل تھے۔ روئٹرز نے اس کشیدہ صورت حال سے باخبر کم از کم پانچ انتہائی قابل اعتماد ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ نئی دہلی نے اہداف کی تخصیص کیے بغیر کہہ دیا تھا کہ وہ پاکستان پر کم از کم چھ میزائل فائر کرے گا۔ اس کے جواب میں پاکستان کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ بھارت کو ایسے ممکنہ حملوں کا جواب اپنے میزائلوں کے ’تین گنا‘ حملوں کے ساتھ دے گا۔
کشمیر دنیا کے خطرناک ترین تنازعات میں سے ایک
مغربی سفارت کاروں کے علاوہ واشنگٹن، اسلام آباد اور نئی دہلی میں حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے روئٹرز نے لکھا ہے کہ جس طرح فروری میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی نے دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین ایک نئی جنگ کا شدید خطرہ پیدا کر دیا تھا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کا وہ متنازعہ اور منقسم خطہ، جس پر دونوں ہی ریاستیں اپنی اپنی ملکیت کے دعوے کرتی ہیں، آج بھی دنیا کے سب سے خطرناک علاقوں اور تنازعات میں سے ایک ہے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین یہ کشیدگی صرف دھمکیوں کے تبادلے تک ہی محدود نہیں رہی تھی۔ اس دوران پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کے خلاف فضائی کارروائیاں بھی کیں اور پاکستان نے بھارت کا ایک جنگی طیارہ بھی مار گرایا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس طیارے کے جس پائلٹ کو پاکستان نے اپنی سرزمین سے گرفتار کر لیا تھا، اسے بعد میں امریکا کے مبینہ دباؤ پر واپس بھار ت کے حوالے بھی کر دیا گیا تھا۔
روایتی ہتھیاروں کی دھمکیاں
روئٹرز نے لکھا ہے کہ ان دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین اس تناؤ کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھا کہ اس دوران جن میزائلوں کے دوطرفہ استعمال کی دھمکیاں دی گئی تھیں، وہ روایتی ہتھیاروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھے۔ پھر بھی اس صورت حال پر واشنگٹن، بیجنگ اور لندن تک میں بہت تشویش پائی جانے لگی تھی۔
پاکستانی فضائیہ نے فروری کے اواخر میں جو بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا تھا، وہ دونوں ممالک کے مابین 1971ء کی جنگ کے بعد سے ایسا پہلا واقعہ تھا کہ ان میں سے کسی ایک ملک نے دوسرے کا کوئی جنگی جہاز مار گرایا تھا۔ اس جنگی طیارے کا بھارتی پائلٹ ابھینندن کمار اس لیے پکڑا گیا تھا کہ وہ اپنے ہوائی جہاز کی تباہی سے پہلے ہی اس سے بروقت نکل تو گیا تھا اور اپنے پیراشوٹ کے ذریعے وہ جہاں پر اترا تھا، وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ تھا۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
آئی ایس آئی کے سربراہ کو فون پر دھمکی
روئٹرز کے مطابق جس روز پاکستانی حکام نے بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کیا تھا اور اس کی آنکھوں پر بندھی پٹی اور ہتھکڑیوں والی تصویر بھارتی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اسی شام بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے ایک ’محفوظ‘ ٹیلی فون لائن پر پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ عاصم منیر سے بات بھی کی تھی۔
اس گفتگو کی تفصیلات سے آگاہ مغربی سفارتی اور بھارتی حکومتی ذرائع نے بتایا کہ اجیت دووال نے عاصم منیر کو بتا دیا تھا کہ بھارت اپنی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے تحت پاکستان میں ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں سے باز نہیں آئے گا، جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس دوران دووال نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کی یہ جنگ صرف ان عسکریت پسند گروپوں کے خلاف ہے، جو پاکستانی سرزمین سے بھارت پر حملوں کی وجہ بنتے ہیں۔
پاکستان کا جواب
چند مغربی سفارتی ذرائع کے علاوہ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کے خواہش مند ایک پاکستانی وزیر نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ اجیت دووال اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے مابین گفتگو میں نئی دہلی کی طرف سے دھمکی دی گئی تھی کہ بھارت کم ازکم بھی پاکستان میں چھ اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dufour
7 تصاویر1 | 7
روئٹرز کے مطابق اس پر آئی ایس آئی کے سربراہ عاصم منیر نے نہ صرف اجیت دووال کو ایسے کسی بھی حملے کی صورت میں بھرپور جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا، ’’اگر آپ ایک میزائل فائر کریں گے، تو ہم تین کریں گے۔ بھارت نے اگر کچھ بھی کیا، تو اس پر پاکستان کی طرف سے جواب تین گنا ہو گا۔‘‘
امریکی مداخلت
نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین اس تقریباﹰ جنگی صورت حال میں کمی کے لیے امریکی کوششوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دوران امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اجیت دووال، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔
اس تناؤ میں کمی کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن بھی بہت سرگرم رہے تھے، جو نئی دہلی اور اسلام آباد میں اعلیٰ شخصیات کے ساتھ بار بار رابطے کر رہے تھے۔ اسی دوران پاکستان کے ایک وزیر کے بقول اس کھچاؤ میں کمی کے لیے چین اور متحدہ عرب امارات نے بھی اپنے اپنے طور پر بھرپور کوششیں کی تھیں۔
م م / ع ب / روئٹرز
کس ملک کے پاس کتنے طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں؟
دنیا میں اب تک 168 طیارہ بردار بحری بیڑے بنائے جا چکے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں محض 19 بحری بیڑے زیر استعمال ہیں۔ پکچر گیلری میں جانیے کس ملک نے کتنے بحری بیڑے تیار کیے اور کتنے آج زیر استعمال ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/Zumapress
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جسے 1997 میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بحری بیڑہ اب بھی ملکی بحریہ کے استعمال میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہالینڈ
چالیس کی دہائی کے اواخر میں ہالینڈ نے برطانیہ سے دو طیارہ بردار بحری بیڑے خریدے تھے۔ 1968 میں ان میں سے ایک ارجیٹینا کو فروخت کر دیا گیا تھا جو اب قابل استعمال نہیں ہے۔ دوسرا بحری بیڑہ سن 1971 میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/arkivi
ارجنٹائن
ہالینڈ سے خریدے گیا بحری بیڑا سن 1969 سے لے کر 1999 تک ارجنٹائن کی بحریہ کے زیر استعمال رہا۔ علاوہ ازیں اے آر اے انڈیپینڈینسیا بحری بیڑا 1959 سے لے کر 1969 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
برازیل
برازیل کے پاس اس وقت ایک فرانسیسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جو سن 2000 سے زیر استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں خریدا گیا ایک اور بحری بیڑہ بھی سن 2001 تک برازیل کی بحریہ کا حصہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/A. Zemlianichenko
اسپین
خوان کارلوس نامی بحری بیڑہ سن 2010 سے ہسپانوی بحریہ کا حصہ ہے جب کہ ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ریزرو میں بھی موجود ہے۔ جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے دو ہسپانوی بحری بیڑے متروک بھی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/P. Dominguez
آسٹریلیا
آسٹریلیا کے پاس مختلف اوقات میں تین ایسے جنگی بحری بیڑے تھے، جو لڑاکا طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے دو پچاس کی دہائی کے اواخر جب کہ تیسرا سن 1982 تک آسٹریلوی بحریہ کے استعمال میں رہے۔
تصویر: picture-alliance/epa/J. Brown
کینیڈا
گزشتہ صدی کے وسط میں کینیڈا کے پاس جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے پانچ بحری بیڑے تھے جنہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کینیڈا کے پاس ایسا ایک بھی بحری بیڑہ موجود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
بھارت
آئی این ایس وکرمادتیا نامی روسی ساخت کا طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 2013 سے بھارتی بحریہ کے استعمال میں ہے۔ جب کہ کوچین شپ یارڈ میں ورکرنت نامی ایک اور بحری بیڑے کی تعمیر جاری ہے۔ ویرات نامی بحری بیڑہ سن 2016 تک استعمال میں رہنے کے بعد اب ریزرو میں شامل کیا جا چکا ہے جب کہ ایک بحری بیڑہ سن 1961 سے لے کر 1997 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/A. Poyrekar
روس
اس وقت روسی فوج کے زیر استعمال صرف ایک ایسا بحری بیڑہ ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس نے نوے کی دہائی کے پہلے پانچ برسوں کے دوران چار طیارہ بردار بحری بیڑوں میں سے تین اسکریپ کر دیے تھے جب کہ ایک کی تجدید کے بعد اسے بھارت کو فروخت کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-lliance/AP Photo
جاپان
دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان کے پاس بیس طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے تھے جن میں سے اٹھارہ عالمی جنگ کے دوران امریکی حملوں کے باعث تباہ ہو کر سمندر برد ہو گئے تھے۔ دیگر دو کو جاپان نے سن 1946 میں ڈی کمیشن کرنے کے بعد اسکریپ کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/Handout/P. G. Allen
فرانس
فرانسیسی بحریہ کے تصرف میں اس وقت ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جب کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے گزشتہ صدی کے اختتام تک کے عرصے میں فرانس نے سات طیارہ بردار بحری بیڑے اسکریپ کر دیے تھے۔
تصویر: dapd
جرمنی
جرمنی نے بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک کے عرصے کے دوران آٹھ طیارہ بردار بحری بیڑے تیار کرنے کے منصوبے بنائے تھے جو مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکے۔ اس وقت جرمن بحریہ کے پاس ایک بھی ایسا بحری بیڑہ نہیں ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تصویر: picture alliance/akg-images
برطانیہ
اس وقت برطانوی نیوی کے زیر استعمال کوئی طیارہ بردار بحری بیڑہ نہیں ہے لیکن لندن حکومت گزشتہ چند برسوں سے دو بحری بیڑوں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ صدی میں برطانیہ کے تصرف میں چالیس ایسے بحری بیڑے تھے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے چار دوسری عالمی جنگ کے دوران تباہ ہوئے جب کہ دیگر کو اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Marine Nationale
اٹلی
اطالوی بحریہ کے پاس اس وقت دو طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں جن میں سے ایک سن 1985 سے جب کہ دوسرا سن 2008 سے زیر استعمال ہے۔ اٹلی کا ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 1944 میں ڈوب گیا تھا جب کہ ایک کو پچاس کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/B. Riegert
چین
چین نے تیرہ مئی 2018 کے روز مکمل طور پر ملک ہی میں تیار کردہ پہلے طیارہ بردار بحری بیڑے کو تجرباتی بنیادوں پر سمندر میں اتارا۔ اس سے قبل چینی بحریہ کے پاس ایک روسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جسے سن 1998 میں یوکرائن سے خریدا گیا تھا اور اسے بحال کر کے سن 2012 میں قابل استعمال بنا لیا گیا تھا۔
امریکی فوج کے پاس اس وقت دس طیارہ بردار بحری بیڑے زیر استعمال ہیں جب کہ ایک ریزرو میں بھی موجود ہے۔ امریکی بحری بیڑے طیاروں کی پرواز اور لینڈنگ کے حوالے سے بھی نہایت جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور انہیں جوہری توانائی سے چلایا جاتا ہے۔ امریکا گزشتہ صدی کے دوران 56 بحری بیڑے اسکریپ کر چکا ہے۔