نئے ایرانی صدر جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کریں، امریکا
6 اگست 2021
ابراہیم رئیسی نے ایران کے آٹھویں صدر کا حلف لینے کے بعد ملک کو مضبوط کرنے اور عالمی طاقتوں سے بات چیت کرنے پر زور دیا ہے۔ ادھر امریکا نے نئے صدر سے جوہری مذاکرات دوبارہ جلد شروع کرنے کو کہا ہے۔
اشتہار
پانچ اگست جمعرات کو ابراہیم رئیسی کے ایران کے نئے صدر کا حلف لینے کے فوراً بعد امریکا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ ان پر جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دیتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''ہم ایران پر زور دیتے ہیں کہ وہ جلد از جلد مذاکرات پر واپس آئیں تاکہ ہم اپنا کام جلد مکمل کر سکیں۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر رئیسی کے لیے بھی، ''ہمارا وہی پیغام ہے جو ان کے پیشروؤں کے لیے ہوتا تھا۔ امریکا اپنی قومی سلامتی اور اپنے اتحادیوں کے مفادات کا دفاع کرے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایران اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سفارتی سطح پر معاملات کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھے گا۔''
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تاہم کہا کہ بات چیت کا یہ، ''یہ عمل غیر معینہ مدت تک نہیں چل سکتا۔''
اس سے قبل پانچ اگست جمعرات کو ایران کی پارلیمان میں ابراہیم رئیسی نے اپنے ہاتھ میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو ہاتھ میں لے کر ایران کے آٹھویں صدر کے طور پر حلف اٹھایا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ ایران پر عائد پابندیوں کو ختم کرانے کے لیے کسی بھی سفارتی منصوبے کی حمایت کریں گے۔
سخت گیر نظریات کے حامل ساٹھ سالہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی،حسن روحانی کے جانشین ہیں،جنہیں مغربی ممالک میں قدرے اعتدال پسند رہنما خیال کیا جاتا تھا۔ رئیسی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے بہت قریبی سمجھے جاتے ہیں اور باور کیا جاتا ہے کہ آگے چل کر وہی 82 سالہ خامنہ ای کے جانشین بھی ہو سکتے ہیں۔
جوہری امور اور خطے میں ان کی پالیسیوں کے حوالے سے امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ حلف اٹھانے کے بعد ابراہیم رئیسی نے کہا، ''ایران کے خلاف عائد امریکا کی تمام غیر قانونی پابندیاں ختم ہونی چاہیں۔''
تاہم انہوں نے، ''سفارت کاری اور دنیا کے ساتھ وسیع تعمیری مذاکرات'' کو آگے بڑھانے کا بھی وعدہ کیا اور اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ علاقائی پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا ان کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح رہے گی۔ انہوں نے کہا، ''میں دوستی اور بھائی چارے کے لیے تمام ممالک، بالخصوص پڑوسی ممالک کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔''
سفارتی کاری سے متعلق ان کا یہ بیان اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ ویانا میں تعطل کا شکار جوہری مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایران کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے اور، ''ملک کی دفاعی حکمت عملی میں '' جوہری ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
حلف برداری کی تقریب میں مقامی اور بہت سے بیرونی رہنماؤں کی موجودگی میں انہوں نے کہا کہ مقامی بحران کو بات چیت کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے اور بیرونی ممالک کی افواج کی موجودگی سے استحکام کے بجائے عدم استحکام کی ہی حوصلہ افزائی ہو گی۔
اشتہار
انسانی حقوق کی پاسبانی کا دعوی
جمعرات کے روز ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی نے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے لیے ان کے خلاف تفتیش کا مطالبہ کیا۔ تاہم رئیسی کا دعوی ہے کہ وہ انسانی حقوق کے سچے حامی ہیں اور اس کا فاع کریں گے۔
ابراہیم رئیسی کا سنہ 1988 میں عراق کے ساتھ ایران کی جنگ کے اختتام پر اجتماعی قتل عام اور پھانسیوں سے گہرا تعلق بتایا جاتا ہے۔ اس وقت رئیسی ڈپٹی پراسیکیوٹر ہوا کرتے تھے اور وہ بعض ایسی جیلوں کے پینل میں شامل ہوئے جن میں سیاسی قیدی بند تھے۔
ابراہیم رئیسی اور ان کے سربراہ آیت اللہ حسین علی منتظری کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ایک ریکارڈنگ سن 2016 میں لیک ہوئی تھی جس میں منتظری نے بڑی تعداد میں ہونے والی ان پھانسیوں کو ایران کی تاریخ کا سب سے بڑا مجرمانہ فعل قرار دیا تھا۔
عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس دوران مخالف گروپ کے تقریباً پانچ ہزار افراد کو پھانسی دی گئی تھی جبکہ ایک دیگر مخالف گروپ مجاہدین خلق کا کہنا ہے کہ 30 ہزار افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔حالانکہ ایران نے کبھی بھی ان الزامات کو تسلیم نہیں کیا اور رئیسی نے بھی عوامی سطح
پر اس میں اپنے کردار کو کبھی تسلیم بھی نہیں کیا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)
متاثرکُن اور شاندارایرانی ثقافتی مقامات
بہت سے ماہرین تاریخ و آثار قدیمہ ایران کو انسانی تہذیب کا گہوارہ قرار دیتے ہیں۔ ایران کے تاریخی ثقافتی مراکز اس ملک اور خطے کے شاندار ماضی کا احوال بیان کرتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تخت جمشید
ہخامنشی شاہی خاندان نے تخت جمشید یا پرسیپولس نامی شہر کی تعمیر 520 قبل از مسیح شروع کی تھی۔ یہ قدیم پارس تہذیب کا مرکز تھا۔ سکندر اعظم یونانی نے ہخامنشی خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ اپنی عسکری مہم جوئی کے دوران کیا۔ اس کے کھنڈرات میں محلات، مقبروں، عمارتوں کے ستون اور قدیم نوادرات قابل تعریف و توصیف ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
چغا زنبیل
سلطنت ایلام کے بادشاہ انتاشا ناپیرشا نے چغا زنبیل نامی شہر تیرہویں صدی قبل از مسیح میں تعیمر کیا تھا۔ میسوپوٹیمیا کی ریاستوں کے ساتھ جنگ و جدال ہی اس کی تعمیر کی وجہ تھی۔ اس قدیمی شہر کے وسط میں ایران میں واقع قدیم ترین مذہبی عبادت گاہ ہے۔ یہ تاریخ مقام ایرانی صوبے خوزستان میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. D. Kley
پاسارگاد
یہ شیراز شہر سے نوے کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ ہخامنشی بادشاہ سائرس اعظم کے دور میں سلطنت کا صدرمقام تھا۔ چھٹی صدی عیسوی اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس قدیمی شہر میں زیرزمین آب پاشی کا نظام قابل تعریف ہے۔ تصویر میں سائرس سوم کا مقبرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBroker/S. Auth
سینٹ تادؤس کی خانقاہ
یہ کلیساٴ سیاہ کے طور پر بھی مشہور ہے اور یہ آرمینیائی خانقاہ ہے۔ یہ ایرانی صوبے مغربی آذربائیجان میں واقع ہے۔ آرمینیائی مسیحی کمیونٹی کا خیال ہے کہ یہ یہودہ تادؤس کے نام منصوب کلیسا پہلی بار اڑسٹھ عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی۔ ایک زلزلے میں تباہی کے بعد اس کو چودہویں صدی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ آرمینیائی اور ایرانی مسیحی کمیونٹی کے علاوہ کئی اور ممالک کے مسیحی زائرین یہاں آتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تبریز کا بازار
ایرانی شہر تبریز مشہور سلک روڈ پر واقع ہے۔ یہ برسوں سے کارباری اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تاریخی بازار کے ساتھ ساتھ مذہبی اور تعلیمی مراکز کا شہر بھی تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے طویل احاطہ بازار تیرہویں صدی عیسوی کی نشانی ہے۔ تبریز شہر صفوی خاندان کی سلطنت کا دارالحکومت اور اسی دور میں شیعہ اسلام کو فروغ ملا اور سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پایا۔
تصویر: picture-alliance/Dumont/T. Schulze
شیخ صفی الدین کا مزار
صفوی دور کے شیخ صفی الدین شاعر اور صوفی بزرگ تھے۔ اُن کا مزار یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے۔اردبیل میں واقع مزار پہلے شیخ صفی الدین کا تربیتی و تعلیمی مرکز تھا۔ اربیل کا شہر صفوی دور حکومت میں ایک متبرک شہر خیال کیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/P. Langer
یزد کا قدیمی شہر
جدید ایران کے تقریباً وسط میں یزد کا شہر واقع ہے۔ یہ صحرا میں ایک نخلستان پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اپنے دور میں یہ زرتشتی مذہب کا مرکز و محور بنا۔ عظیم الشان عبادت خانوں کی وجہ سے بھی یزد شہر مشہور ہے۔ اس شہر کے اندر آبی گزرگاہوں کا نظام جسے قناط ٹکنالوجی کہا جاتا ہےقابل دید تھا۔یہاںونڈ ٹاورز بھی قائم کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/R. Zimmermann
یزد کا آتش کدہ
زرتشتی مذہب میں آگ انتہائی مقدس و متبرک ہے اور تخلیق کائنات کی اساس خیال کی جاتی ہے۔ یزد کا آتشکدہ مرکزی عبادت خانہ تھا۔ یہ عبادت کے ساتھ ساتھ زائرین اور عقیدت مندوں کی ملاقاتوں اور تبادلہٴ خیال کا ایک مقام بھی تھا۔ زرتشتی دور حکومت دوسری سے ساتویں صدی عیسوی میں اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
باغ ارم
ارم گارڈن تاریخی فارسی باغات کی ایک متاثر کن مثال ہے جو قرون وسطی میں پہلی بار تعمیر ہوا تھا۔ اونچی دیواروں سے گھرا ہوا،ان میں عام طور پر واٹر چینل اور ایک سمر محل شامل ہوتا ہے۔ فارسی ثقافت کا ایک اہم حصہ،باغات نے زمینی جنت کے تصور کو مجسم بنایا۔ یہ لفظ در حقیقت باغیانے کے لئے قدیم فارسی اصطلاح سے ماخوذ ہے ، "پیرادیدا"۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
اصفہان کا سی وسہ پل
دریائے ژائندہ پر بنائے گئے گیارہ پلوں میں ایک سی وسہ پل ہے۔ یہ دو منزلہ پل صفوی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا سن تعمیر سولہویں صدی ہے۔ اس میں کئی چائے خانے بہت مشہور ہیں۔ اس مقام پر لوگ بڑے شوق و ذوق سے طعام کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تہران کا گلستان محل
قاجار خاندان کے دور کی یہ نشانی ایرانی دارالحکومت تہران میں موجود ہے۔ اس کے بعض حصے سن 1925 اور 1945 کے درمیان مسمار کر دیے گئے تھے۔ ان مسمار شدہ جگہوں پر نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ آج کل گلستان محل میں قدیمی زیورات، ہتھیاروں اور ظروف کا میوزیم قائم ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/S. Auth
تہران کا مینار آزادی
تہران میں تعمیر کیا گیا فریڈم ٹاور پینتالیس میٹر بلند ہے۔ یہ جدید دور کا ایک شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل یہ یادگارِ شاہ کے نام سے موسوم تھا۔ اسے بادشاہ رضا شاہ نے ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار برس مکمل ہونے کے موقع پر تعمیر کروایا تھا۔ اس کا طرز تعمیر ساسانی دور سے ملتا ہے۔