نئے سال کی آمد ، امدادی اداروں کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا
31 دسمبر 2018
سن 2019 میں دنیا بھر میں جاری قریب اکیس بڑے انسانی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ نے ڈونر ممالک سے اکیس اعشاریہ نو بلین ڈالر امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ اس ضمن میں دیگر امدادی ادروں کو بھی کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔
اشتہار
ان میں سب سے بڑا بحران یمن کا ہے جہاں بہت بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ اپیل میں شامی بحران کا ذکر نہیں ہے، جہاں امدادی کاموں کے لیے قریب 25 بلین ڈالر کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
1۔ ہر ممکنہ عالمگیر وبا سے مقابلے کے لیے تیار رہنا
مقامی افراد کو بیماریوں سے آگاہی کے لیے رابطہ کاری، صاف پانی اور حفظان صحت کی سہولیات کی فراہمی
2۔ ترک وطن کرنے والے لاکھوں مہاجرین کی بہتری کے اقدامات کرنا
3۔ ماحول اور آب و ہوا سے متعلق ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا
او سی ایچ اے، اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ
1۔ موصول شدہ امداد اور ضرورت کو پورا کرنے کے درمیانی خلا کو ختم کرنا۔ ڈونرز کی جانب سے 14.3 بلین ڈالر کی ریکارڈ امداد سے رواں برس فقط ستاون فیصد ضروریات کو پورا کیا جا سکا۔
2۔ تنازعات کے فریقین کو انتباہ کے لیے عملی اقدامات اٹھانا۔
3۔ متعلقہ کمیونٹی میں جنسی استحصال اور زیادتیوں کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانا۔
ورلڈ فوڈ پروگرام
1۔ یمن میں خوراک کی قلت کا شکار لاکھوں افراد بالخصوص خواتین اور بچوں کے لیے اس حوالے سے معاونت کو مزید بہتر بنانا۔
2۔ ان علاقوں میں جہاں تنازعات یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث روز مرہ زندگی متاثر ہوئی، وہاں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر بحالی اور آباد کاری کا کام سر انجام دینا۔
سیو دی چلڈرن
یمن میں قریب پچاسی ہزار بچے بھوک اور بیماری کے باعث ہلاک ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے تمام فریقین کو تنازعے کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہو گا۔
2۔ عوامی جمہوریہ کانگو ایبولا وائرس کے سبب بحران کا شکار ہے۔ اس حوالے سے سن 2019 فیصلہ کن ہو گا۔
3۔ بچوں کی فلاحی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق وینزویلا سے قریب ایک اعشاریہ پانچ ملین باشندے کولمبیا میں داخل ہوئے ہیں جن میں سے ساٹھ فیصد بچے ہیں۔ انہیں بیماری، استحصال اور اسمگل کیے جانے کے خطرات کا سامنا ہے۔
آکسفیم
1۔ امدادی ادارے آکسفیم کا ترجیحی ملک سن 2019 میں یمن رہے گا۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ انتباہ کر چکی ہے کہ یمن میں گزشتہ ایک سو سال کی بد ترین خشک سالی کا امکان ہے۔
2۔ جمہوریہ کانگو میں ایبولا وائرس کے خاتمے کے بد وہاں زندگیوں اور برادریوں کی بحالی کا کام۔
3۔ سن دو ہزار انیس میں جنوبی سوڈان میں صورت حال ابتر ہونے کا امکان ہے۔ اندازوں کے مطابق آئندہ سال مارچ تک یہاں قحط سالی اور بھوک کا شکار افراد کی تعداد چار سے پانچ ملین ہو جائے گی۔
ایکشن ایڈ
1۔ عوامی جمہوریہ کانگو: اس امدادی تنظیم کے مطابق عالمی برادری کو یہاں شورش کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں دوگنا کرنی ہوں گی۔
2۔ ایکشن ایڈ ایسی روہنگیا مہاجر خواتین کے لیے کام کر رہی ہے جنہیں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اُن کی بحالی کے لیے اُن کا میانمار واپس نہ جانا بے حد ضروری ہے۔
3۔ ایکشن ایڈ بھوک اور جنگی تنازعات کے شکار ملک یمن میں امدادی کام کو اپنی ترجیحات میں شمار کرتی ہے۔
ص ح / ع ا / نیوز ایجنسی
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔