وزیر اعظم پاکستان نے منگل کے روز ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس پر صحافی حلقے اور کشمیری قوم پرستوں کی طرف سے سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
اشتہار
وزیر اعظم پاکستان نے منگل کے روز ملک کا ایک نیا 'سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس نئے نقشے کی منظوری وفاقی کابینہ نے بھی دے دی ہے۔ پاکستان اس نئے نقشے کو اقوام متحدہ میں منظوری کے لیے پیش کرے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ نیا نقشہ متعارف کراتے ہوئے اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن قرار دیا۔ اس نقشے کو اسکولوں اور کالجوں میں بھی استکمال کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے اسے''پاکستان کا نیا قانونی نقشہ‘ قرار دیا ہے۔
اس نقشے کی تائید پاکستان کی اپوزیشن لیڈر شپ نے بھی کی ہے۔ یہ نقشہ پاکستان کی طرف سے ایک ایسے موقع پر پیش کیا گیا جب بُدھ 5 اگست کو بھارت میں مودی سرکار کی طرف سے ایک سال قبل جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا متنازعہ اعلان سامنے آیا تھا۔
نئے نقشے کے خد و خال
پاکستان کے نئے نقشے میں کشمیر کو واضح طور پر ایک 'متنازعہ خطے‘ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ اس کی منظوری یا اس کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرار داد کی روشنی میں ہی کیا جائے گا۔
نئے نقشے کو پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اس نقشے کے ذریعے گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت کی طرف سے جموں کشمیر سے متعلق جن غیر قانونی اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا ان سب کی نفی کی جاتی ہے۔‘‘ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اس نئے نقشے کے بارے میں کہنا تھا، ''ماضی میں بھی کئی نئے انتظامی نقشے پیش کیے جاتے رہے ہیں لیکن پہلی بار کسی نقشے کی مدد سے کشمیری عوام کی خواہشات کی عکاسی ہو رہی ہے۔‘‘ شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو پاکستان بھر میں منائے جانے والے 'یوم استحصال‘ کے موقع پر کہا کہ پاکستان کی طرف سے نئے نقشے کو پیش کر کے حکومت نے ' نئی دہلی حکومت کو واضح پیغام بھیج دیا ہے کہ اُس کی طرف سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق کیے جانے والے غیر قانونی فیصلوں کو مکمل طور پر رد کیا جا رہا ہے۔‘‘
پاکستان کی صحافتی برادری کا خیال
پاکستان میں اس فیصلے کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے صحافی اور کالم نگار ملک رمضان اسراء نے کہا کہ پہلے بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے کوئی موثر حکمت عملی نہیں بنائی گئی تھی لیکن موجودہ حکومت کے غیر دانشمندانہ رویے نے اس اہم مسئلہ کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا،''میری کچھ کشمیریوں سے بات ہوئی ہے جنہوں نے عمران خان کے موجودہ اقدام کو محض ایک ڈرامہ قرار دیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مذاق ہے۔ اب دیکھیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ان شوشوں کے سبب ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کل ہی رولاکوٹ تتہ پانی سیکٹر میں بھارت کی طرف سے فائرنگ ہوئی ہے جس سے کوئی گیارہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ جس میں سات خواتین بھی شامل ہیں۔‘‘
صحافی اور کالم نگار ملک رمضان اسراء کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں شامل کرنے سے کشمیر آزاد ہر گز نہیں ہو گا۔ ان کے بقول،'' صرف گانے بنانے اور شاہراوں کے نام بدلنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اگر موجودہ حکومت واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہے تو اس مقصد کے لیےعالمی عدالت سمیت عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ مضبوط بنائے جس سے کوئی حقیقی فائدہ ہو۔‘‘ ملک اسراء کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف کشمیریوں کو ہے کہ آیا وہ پاکستان میں شامل ہوتے ہیں یا اپنی ریاست چاہتے ہیں؟
اپنے جیسے دیگر صحافیوں کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ملک رمضان اسراء نے کہا،''سب سے بڑی منافقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھارت کے ظلم وستم کے خلاف تو باتیں کی جاتی ہیں جو کہ اچھی بات ہے مگر ہم اپنے ملک میں قبائلیوں، بلوچوں اور اقلیتی برادریوں کے معاملے میں اندھے بہرے بن جاتے ہیں۔ جس ملک کی حکومت اپنی ریاست میں قتل و غارت پر خاموش ہو کیا اس کو حق ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی بات کرے۔‘‘
پاکستان کا نیا نقشہ اور کشمیری قوم پرستوں کا رد عمل
کشمیری قوم پرست پاکستان کے اس اقدام پر چراغ پا ہیں۔ معروف کشمیری راہنما اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ترجمان رفیق ڈار نے اس مسئلے پر اپنی جماعت کا نقطہ نظر دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اسلام آباد کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی قرار داد کے خلاف ہے جس کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ یہ اسی طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے جس طرح بھارت نے انیس سو ترپن میں نیم خودمختاری ختم کر کے شیخ عبداللہ کو گرفتار کیا تھا اور پھر گزشتہ برس 5 اگست کو نئی دہلی نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد پاکستان نے کشمیر کے مسئلے پر اپنی اخلاقی برتری کو کھو دیا ہے۔ "ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے بھی وہی کیا ہے جو بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ کیا۔ لیکن ان مصنوعی اقدامات سے کشمیریوں کی خودمختاری کی جدوجہد نہیں رکے گی اور وہ اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھیں گے، جس کا مقصد پاکستان یا بھارت سے الحاق نہیں بلکہ خودمختار کشمیر ہے۔"
کشمیر: دفعہ 370 کے خاتمے کی پہلی برسی
03:20
معروف کشمیری دانشور اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والی سیاسی جماعت جموں کشمیر عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صدر پروفیسر خلیق احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس فیصلے سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " اس کشیدگی کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو اور خطے کی عوام کو ہوگا کیونکہ جنگ کی صورت میں سب سے زیادہ ہم مارے جائیں گے۔ اس فیصلے سے پاکستان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسے کشمیریوں کی زمین چاہیے اور یہ کہ اسے کشمیریوں سے کوئی دلچسپی نہیں ورنہ وہ اس مسئلے کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر کو اس طرح نظر انداز نہیں کرتا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قرار داد کی صریح خلاف ورزی ہے۔ " پاکستان کے حامی اس فیصلے کو شاید اچھا سمجھتے ہوں لیکن خود مختاری کے حامی اس فیصلے کو انتہائی منفی سمجھتے ہیں اور وہ اس کی بھرپور مذمت بھی کریں گے اور اس کے خلاف مزاحمت بھی۔"
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے کشمیری قوم پرست تجزیہ نگار طاہر مجید لون کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد کشمیری قوم پاکستان کے اخلاص کو شک کی نظر سے دیکھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اس فیصلے کے بعد کشمیر کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر یعنی کشمیری عوام مسئلے سے باہر ہوگئے ہیں اور یہ مسئلہ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان رہ گیا ہے۔ اس سے پاکستان کے عزائم بھی سامنے آگئے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان آزاد کشمیر کو ہڑپ کر جائے گا اور عملی طور پر اسلام آباد وہی کرے گا، جو نئی دہلی نے کیا ہے۔"
کشور مصطفیٰ، عبدالستار/ ع ت
’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب پورا ہو گيا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکار اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin
وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا
ایک سال قبل بھارتی حکومت نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے وادی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ کشمیریوں کے پاس یہ خصوصی حیثیت صدراتی حکم کے تحت گزشتہ ستر سالوں سے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس فیصلے کے فوری بعد کشمیری رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا ور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
تصویر: AFP/R. Bakshi
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع
لاک ڈاؤن کے فوری بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر شدید کریک ڈاؤن کیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ مودی مخالف جذبات رکھنے والے سرگرم کارکنوں اور شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس بحال کیا جائے۔
تصویر: Imago Images/S. Majeed
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
اگست 2019ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھارت کے زیر انتطام کشمیر پر ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ بھارت کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سےشہریوں پر مبینہ تشدد
لاک ڈاؤن کے پہلے ماہ ہی برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ بھارتی افواج کی جانب سے سویلین شہریوں پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بی بی سی نے ان مقامی افراد سے گفتگو کی جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا
ستمبر دو ہزار انیس میں پاکستان، برطانیہ، بھارت اور خود بھارتی زیر انتطام کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لاک ڈاؤن کے باعث کشمیر کی معیشت بد حالی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت
گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرس کے اراکین کو ان کی قیادت سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی ماہ پولیس نے جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی سمیت کئی خواتین کو احتجاجی مظاہرہ کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے
اکتیس اکتوبر کو سرکاری طور پر بھارتی وفاقی حکومت کے احکامات لاگو ہوئے اور جموں و کشمير اب دو مختلف خطے بن گئے، ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس حوالے سے بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ’’جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa
مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان
نومبر میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے اگست 2019ء میں جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo
انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا
نومبر میں ہی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع لداخ کے خطہ کرگل میں ایک سو پینتالیس روز کے بعد انٹرنیٹ اور فون سروسز کو بحال کر دیا گیا۔ تاہم وادی کمشیر میں اس پر پابندیاں عائد رہیں۔ دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ کشمیر میں موبائل فون کی ٹیکسٹ میسیجنگ سروس بحال کی جائے گی تاہم یہ بحالی بہت محدود تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/X. Galiana
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس
جنوری دو ہزار بیس میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کی صورتحال پر اجلاس بلایا۔ اس موقع پر چین کی جانب سے کہا گیا کہ کشمیر کی قمست کا فیصلہ وہاں کی عوام کو کرنا چاہیے اور چین کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا ہے۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/F. Khan
پاکستانی وزیر اعظم کا خطاب
رواں سال فروری میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے پانچ فروری کو مظفرآباد میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہی ایک دن کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔‘‘
تصویر: AFP/Getty Images
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری
بھارت کی جانب سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظر بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ فروری میں ہی امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کی صورتحال کا حل نکالنے کے لیے ثالثی کے کردار کی پیش کش کی گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Hussain
انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی
اس سال مارچ میں انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کچھ کمی کی جاتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی انتہائی سست رفتار کے ساتھ۔
تصویر: Reuters/A.
نئے قوانین کا نفاظ
اپریل میں بھارتی حکومت کی جانب سے نئے قوانین کا نفاظ کیا جاتا ہے۔ نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو جموں اور کشمیر میں پندرہ سال تک رہائش پذیر ہوگا وہ کشمیری ڈومیسائل کا اہل بن جائے گا۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت
مئی میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور کشمیری جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجیوں اور چار کشمیری جنگجوؤں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency/J. Dar
’بھارت جمہوریت کے امتحان میں ہار گیا’
اسی سال جولائی میں 'فورم فار ہیومن رائٹس ان جے اینڈ کے‘ نامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔
تصویر: AFP/T. Mustafa
بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت
جولائی میں ہی ایک چھوٹے بچے کی موجودگی میں اس کے نانا کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس بچے کے نانا سکیورٹی افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کا مبینہ طور پر نشانہ بن گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’یوم استحصال‘
پاکستان کی جانب سے پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ کہا جا رہا ہے۔ آج پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ کشمیر کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ملک کا ایک نیا ’سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔