1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے فون کی لالچ میں مہاجرین مقروض ہو رہے ہیں

شمشیر حیدر مانسی گوپال کرشنا
30 جون 2017

جرمن زبان اور ضوابط سے واقفیت نہ ہونے کے سبب جرمنی میں کئی تارکین وطن موبائل فون سمیت کئی دیگر کمپنیوں کے جھانسے میں آ کر طویل معاہدےکر لیتے ہیں اور اکثر مقروض ہو جاتے ہیں۔

Thüringen Flüchtlingsunterkunft Flüchtlinge Smartphones
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert

جرمنی میں صارفین کے حقوق کے محافظ ادارے نے ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ملک میں نئے آنے والے افراد کے لیے کئی تجاویز دیں ہیں۔

احمد یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے سے کچھ پہلے سن 2014 میں جرمنی آیا تھا، اس نے جرمن زبان بھی سیکھ لی، جرمن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور اب وہ بون شہر کی انتظامیہ کا حصہ ہے۔ جب وہ جرمنی آیا تو وہ بھی موبائل فون کمپنوں کے اشتہارات دیکھ کر نئے فون حاصل کرنے کی لالچ میں تھا۔ لیکن خوش قسمتی سے وہ ان کے جھانسے میں آنے سے بچ گیا۔

جرمنی میں رہنے والے غیر ملکیوں کی تعداد ایک کروڑ ہو گئی

اس سال اب تک مزید کتنے پاکستانی جرمنی پہنچے؟

لیکن جرمنی میں نئے آنے والے کئی دیگر تارکین وطن احمد کی طرح خوش قسمت نہیں تھے۔ احمد ہی کا ایک ساتھی جدید موبائل فون کے حصول کی خواہش میں ایک ٹیلی فون کمپنی سے طویل اور مہنگا معاہدہ کر بیٹھا۔ کانٹریکٹ کرتے وقت اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے یہ رقم صرف ایک بارہ نہیں، بلکہ دو سال تک ہر ماہ ادا کرنا ہے۔

جرمن وفاقی ریاست این آر ڈبلیو میں صارفین کے حقوق کے محافظ ادارے سے وابستہ پیٹرا مائر کہتی ہیں کہ جرمنی میں نئے آنے والے افراد کے ساتھ ایسے واقعات کثرت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔

مائر کا مزید کہنا تھا کہ صرف دو سالہ معاہدہ کر لینے کی غلطی ہی نہیں، بلکہ عام طور پر موبائل کمپنیوں کو معاہدے ختم کرنے کی تحریری اطلاع بھی تین مہینے قبل دینا ہوتی ہے اور ’’اس طرح کے کئی ضوابط جرمن باشندوں کے لیے تو معمول کی بات ہیں لیکن تارکین وطن ان باتوں سے بے خبر ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ اکثر معاشی پریشانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘

بات صرف موبائل فون کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں تک محدود نہیں۔ مائر کے مطابق کئی تارکین وطن اپنے بل وقت پر ادا نہیں کرتے جس کے باعث جرمنی میں کسی شخص کی معاشی صورت حال کا جائزہ لینے والی کمپنی (شوفا) انہیں بلیک لسٹ کر دیتی ہے۔ اس لسٹ میں شامل ہونے کے بعد مکان کرائے پر لینا یا کوئی اور معاہدہ کرنا عملاﹰ ناممکن ہو جاتا ہے۔

جرمنی میں نئی زندگی (2): کسے پناہ ملے گی اور کسے جانا ہو گا؟

جرمنی میں نئی زندگی (1): آمد کے بعد کیا ہوتا ہے؟

اسی طرح بجلی کے بلوں کا معاملہ بھی تارکین وطن کے آبائی ملکوں کی نسبت جرمنی میں بہت مختلف ہے۔ یہ بل ماہانہ بنیادوں پر بھی آتے ہیں اور لیکن اکثر اوقات بجلی کے بل کی اوسط رقم ماہانہ بنیادوں پر ادا کی جاتی ہے لیکن اصل بل ایک سال بعد آتا ہے۔

سالانہ بل میں اگر بجلی زیادہ استعمال کی گئی ہو توادا شدہ رقم کے علاوہ مزید پیسے بھی دینا پڑتے ہیں اور اگر یونٹ کم استعمال کیے گئے ہوں تو پیسے واپس مل جاتے ہیں۔ عام طور پر غیر ملکی اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں اور بجلی زیادہ استعمال کرنے لگتے ہیں، اسی وجہ سے مائر کے مطابق سال کے آخر میں انہیں مزید پیسے ادا کرنا پڑ جاتے ہیں۔

مہاجرین کی تربیت

مائر کہتی ہیں کہ جرمن کمپنیاں بھی غیر ملکیوں کی کم علمی کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اسی وجہ سے تارکین وطن کے لیے تیار کیے جانے والے ’سماجی انضمام کے کورسز‘ میں ان معاملات سے متعلق معلومات کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے کی گئی خصوصی گفت گو میں مائر نے بتایا، ’’اس کورس میں ہم موبائل فون کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کے علاوہ دیگر ایسے معاشی معاملات کے بارے میں آگاہی مہیا کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر تارکین وطن کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ گھروں کے لیے بجلی کی کس قسم کی کمپنی سے اور کیسا معاہدہ کیا جائے، یا پھر یہ کہ ہیٹر استعمال کرتے وقت کھڑکیاں بند رکھیں تاکہ انرجی ضائع نہ ہو وغیرہ۔‘‘

وہ جرمن شہر، جہاں مہاجرین کو گھر بھی ملتا ہے اور روزگار بھی

کس یورپی ملک میں زیادہ پاکستانی مہاجرین کو پناہ ملی؟

تربیت کے بعد مہاجرین کی ملک بدری ۔ جرمن کمپنیوں کی مشکل

03:48

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں